حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کرنے پر مجبور ہیں نہ یہ کہ اتفاق نہیں پایا جاتا بلکہ اس بارے میں کوئی معتدل اور متوسط نقطۂ نظر قائم کرنے میں بھی یہ لوگ ہمیشہ ناکام رہے ہیں ۔ اللہ کو چھوڑ کر بے شمار قوتوں کو اپنا حکمراں بنائے ہوئے ہیں ۔ اس طرح دوسرے مواقع جہاں انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کا مقصد وجود وابستہ ہے وہاں بھی انسان غچے کھاتا پھرتا ہے۔ روح، جزا و سزا وغیرہ ماورا موضوعات کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی سے وابستہ چیزوں کے معاملہ میں بھی انسان ہر دور میں فریب خوردہ دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح عقل خود مطالبہ کرتی ہے کہ بھٹکی انسانیت کے لئے کوئی راہنما کوئی ایسا داعی ہونا چاہئے جو راہ راست کی دعوت دے سکے۔ لہٰذا فریب خوردہ عقل و ادراک دین کی دعوت دینا اور اسے قرآن و سنت کی میزان دے دینا عین انسانیت کی پکار ہے۔اسی ضرورت کی برآوری کے لئے دین کی دعوت ہر دور میں ناگزیر رہی ہے۔ دعوت دین امت مسلمہ پر عائد ایک اہم ترین فریضہ ہے تاکہ جہالت، گمراہی، شرک اور باطل نظریات میں لت پت انسانیت کو ہدایت کی راہ پر لایا جاسکے۔ اسی فریضہ سے عدم توجہی نے ایک طرف کفر و شرک میں مبتلا عامۃ الناس کے لئے ہدایت کی راہیں مسدود کرکے انہیں خدا کے غضب کی طرف جانے کی خاموش اجازت دی جو فی الواقع کنبۂ آدم کے لئے انتہائی المناک ہے۔ دوسری طرف اس فریضہ سے غفلت نے کفر و شرک کے علم برداروں کو ہم پر اتنا جری کردیا کہ خود مسلمانوں کو کفر و شرک کی طرف دعوت دی جانے لگی۔ نتیجتاً مسلمان دعوت و اقدام کے بجائے مدعو بننے اور محض دفاع کرنے کے لئے مجبور ہوگئے۔ شدھی تحریک، بہائی دھرم، عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں اور کمیونزم سرمایہ داری ڈیوکریسی سیکولرزم جیسے نظریات کے ذریعہ امت کے جدید ذہنوں پر حملے دراصل ہماری اسی غفلت کا آئینہ دار ہیں ۔ اس فریضے سے غفلت اور عدم توجہی نے ہی عملاً مسلمانوں کو اقدار اور ارتقاء سے دفاع و تنزل کی طرف گامزن کر دیا ہے۔ اسی تعلق سے حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ لکھتے ہیں : ’’صد حیف کہ آج یہ منصوبہ مسلمانوں سے تقریباً ختم ہوچکا ہے اور اسی لئے اقوام غیر کی نسبت سے ان کی برتری اور فوقیت جس نے انہیں خیر امت بنایا تھا۔ فسانۂ ماضی ہو کر رہ گئی ہے۔ نیز اسی لئے یہ امت اقدامی ہونے کے بجائے جو اس کی اصل شان تھی محض دفاعی بن کر رہ گئی ہے اور ظاہر ہے کہ دفاع محض نہ یہ کہ ارتقاء کا راستہ بند کر دیتا ہے بلکہ زوال و فنا کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے چنانچہ امت پر محض اقدامی صورت حال کے ختم ہوجانے سے اقوام کی یلغار ہے۔امتیں اس پرٹوٹی پڑ رہی ہیں اور امت مرحومہ ان یلغاروں کا دفاع کرتے کرتے نہ یہ کہ صرف تھک چکی ہے بلکہ تقریباً مایوسی کا شکار ہے۔‘‘(۶)