حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
طرز تکلم میں نودمیدہ غنچوں کی مہک جو دماغوں کو معطر کر دیتی تھی۔ کچھ تو بات تھی جو امیر شریعت پاکستان، سید عطاء اللہ بخاریؒ پر حضرت حکیم الاسلامؒ کے خطاب لاجواب سے وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور کبھی نعرۂ تکبیر بلند فرمادیتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عظیم خطیب جو اپنے وقت میں فن خطابت میں یکتائے زمانہ سمجھے جاتے تھے، حضرت حکیم الاسلامؒ کا خطاب سن کر جھوم اٹھتے۔ جدید تعلیم سے متاثر طبقہ آپ کے علم و حکمت سے بھرپور خطابات کو بڑی وقت و اہمیت کے ساتھ سنتا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو ہندوستان میں جدید علوم کا مرکز ہے اور دارالعلوم دیوبند سے اس کو نظریاتی تقابل بھی رہا، وہاں جب ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے دقیق موضوع پر آپ نے خطاب فرمایا تو آپ کے اسلوبِ بیان اور تبحر علمی سے بڑے بڑے پروفیسر اور عصری علوم کے محققین انگشت بدنداں رہ گئے اور ان میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ حقیقی علم کیا ہے اور جسے ہم علم کہتے ہیں اس کی حقیقت کیاہے؟ اس سلسلہ میں میرا ذاتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے افکار و نظریات سے پوری طرح ہم آہنگ تھے اور اس کی بنیادی وجہ شاید یہ تھی کہ حضرت والا ایک عرصہ تک دارالعلوم دیوبندمیں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ جیسی حکمت و افکار کی کتاب ولی اللّٰہی لب و لہجے میں پڑھاتے رہے۔ خطاب، بیان اور تدریس میں حضرت حکیم الاسلامؒ کی انفرادیت دراصل ان کے امتیازات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت والا صفات انبیائی وراثت کا چلتا پھرتا نمونہ اور ہماری عظمت رفتہ کی حسین وجمیل یادگار تھے۔ فکر و نظر میں اعتدال، فکر ولی اللّٰہی کے امین، صوفی، عصری تعلیم میں رواداری کے قائل متکلم اسلام، قرآن و حدیث نبویؐ کے خدمت گار، فقہی بصیرت کے حامل، اسرار شریعت سے باخبر، مسائل کی عقلی تفہیم میں ید طولیٰ کے حامل، نظام تعلیم و تربیت میں یکتائے زمانہ، قابل و مشفق مدرس، حجۃ اللہ البالغہ کی تدریس میں امتیازی شان رکھنے والے، اردو اور فارسی زبان میں نظم و نثر پر قادر الکلام، اسلوب تحریر میں سلامت بے ساختگی و شگفتگی، طرز استدلال سادہ مگر مبرہن، اصلاح نفس اور اصلاح عقیدہ کے علم بردار، سیاسی بصیرت کے ساتھ جرأت مندی، تبلیغی جماعت کے بہی خواہ، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے پسندیدہ اور آئیڈیل مقرر، اپنے عہد کے مردم ساز محقق عالم دین، دارالعلوم دیوبند کے لاجواب مہتمم، مسلک دارالعلوم کے ترجمان، کراماتی اجلاس صد سالہ کے روح رواں ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے معمار، اتحاد ملت کے داعی اور خانوادۂ قاسمی کے ایسے سفیر کہ جن کی عظمتوں کے اعتراف میں تقریباً سارا عالم اسلام ہم آہنگ ہوا اور عرب و افغان سربراہان مملکت نے حضرت حکیم الاسلام کے لئے اپنی پلکوں کو فرش راہ کیا۔