حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
شعرو ا دب سے بھی حضرتؒ کا گہرا تعلق تھا، خاص طور پر نعت اور حمد آپ کی محبوب صنف سخن تھیں ، دیگر اصنافِ سخن پر بھی آپ نے طبع آزمائی کی ان کے تمام تر شعری سرمایہ کی بنیاد اصلاح و تربیت پر ہے۔ اکابر کی طرح حمد و نعت کو ہی انہوں نے اپنی فکری پروا کا محور بنایا، مرشدِ کامل حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے لے کر حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ تک اور اس کے بعد اکثر بزرگوں نے حمد و نعت کا سلسلہ جاری رکھا، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒکی شاعری تو اپنا خاص رنگ اور کیفیت رکھتی ہے اور ان کے یہاں بعض ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جو شعر و فکری دنیا سے تعلق رکھنے والے نامور افراد کے اشعار کے مقابلے میں بآسانی رکھے جا سکتے ہیں ، حکیم الاسلامؒ کی شعری اور فکری صلاحیتوں کا ذکر وقت کی معروف صاحب قلم اور صاحب کمال شخصیت مولانا عبدالماجد دریابادی نے جس وقیع انداز میں کیا ہے اس سے حکیم الاسلامؒ کی پختہ گوئی، برجستگی، سلاست اور روانی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ الحاصل حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے دنیاوی دولت کی طرف کبھی توجہ نہیں فرمائی، سفر و حضر میں حضرت کا پورا وقت رضائے الٰہی و اخروی تیاریوں یعنی تبلیغ و ارشاد اور تالیف و تصنیف وغیرہ ہی میں صرف ہوتا رہا، زبان حال سے گویا یہ صدا تھی ؎ سیم و زر کیا شئے ہے یہ لعل و گہر کیا چیز ہیں آنکھ بینا ہو تو علم و فن کا سرمایہ بہت ان کی نورانی، پاکیزہ اور قابل تقلید زندگی کے بہت سے دیگر خوش نما اور حسین عنوانات ہیں جن کو ایک سوانحی مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ حکیم الاسلامؒ کو س دنیا سے رخصت ہوئے ۲۰؍سال ہو رہے ہیں ، ۱۷؍جولائی ۱۹۸۳ء کو یہ صاحب علم و فضل انسان، جماعت شیخ الہند کا نورِ نظر، اکابر و اسلاف کی نشانی، ہندوستانی مسلمانوں کی دینی اور مذہبی رہنمائی کا ایک نمونۂ کامل، تقریرو خطابت کا نام ور شہ سوار، تحریر و قلم کی باعظمت ہستی عالم فانی سے عالم باقی کی طرف کوچ کرگئی۔ برد اللّٰہ مضجعہ و سقی اللّٰہ ثراہ و جعل اللّٰہ مثواہ۔ ……v……