حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
وقت ۴۵؍افراد کا تھا جو آپ کے دورِ آخر تک ڈھائی سو سے بھی متجاوز ہو چکا تھا۔ ایسے ہی اساتذۂ کرام کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ آپ نے طلبائے دارالعلوم کے معاشی مستقبل کے لئے کچھ مفید اقدامات فرمائے تاکہ فراغت کے بعد اُن کے پاس ایک باعزت روزگار کا بھی فی الجملہ وسیلہ رہے۔ چنانچہ آپ نے دارالصنائع کا شعبہ قائم کیا جس میں چمڑے کا سامان بنانا جیسے سوٹ کیس، ہینڈ بیگ اور پرس نیز گھڑی سازی اور جلد بندی کا کام سکھایا جاتا تھا۔ اسی طرح خوش نویسی اور کتابت کا شعبہ قائم کیا پھر جامعہ طبیہ قائم کرکے اس کی وسیع عمارات تعمیر کرائیں جن میں متعدد درس گاہیں ، علم الابدان کی نظری تعلیم کے ساتھ ایک اناٹمی میوزیم اور تقریباً بیس تیس بیٹ کے دو وارڈ بھی تھے۔دوا سازی کا شعبہ علیحدہ تھا، اس کے علاوہ تعمیری ترقیات بے شمار ہوئیں حتی کہ چند ابتدائی مگر بڑی عمارا ت کے علاوہ باقی تمام آپ کے ہی دور اہتمام کی ہیں جیسے مسجد کا بالائی حصہ، دارجدید، مطبخ، دارالافتاء، باب الظاہر، افریقی منزلیں قدیم و جدید، دارالمدرسین، درجۂ حفظ، درجۂ دینیات اور فارسی خانہ کی عمارات وغیرہ وغیرہ۔ آپ کی پوری زندگی ایک جہد مسلسل رہی جس کا ایک ایک لمحہ دارالعلوم کی خدمت، شہرت اور اُس کے حلقۂ اثر کی توسیع کے لئے وقف تھا۔ ادارہ کی عالمی شہرت کے لئے آپ کے علمی و تقریری کارنامے، دارالعلوم کے انتظامی امور کی ہمہ وقتی مصروفیات، مسلسل اصلاحی مقاصد کے سفر اور پیہم تصنیف و تالیف کا مشغلہ ! پھر ان تمام مشاغل کے باوجود آپ نے طبعی ذوق کے مطابق درس و تدریس کا سلسلہ آخر تک برقرار رکھا۔ چنانچہ آپ مشکوٰۃ شریف کے علاوہ صحاح ستہ کی اہم کتابیں مثلاً ابن ماجہ وغیرہ۔ اور آخر کے برسوں میں بخاری شریف بھی پڑھاتے رہے چوں کہ حضرت حکیم الاسلامؒ اپنے جدِّامجد حضرت الامام النانوتویؒ کی ذہانت و فراست کے علاوہ اُن کے علوم و معارف کے اصلی وارث تھے، اُدھر شیخ الطائفہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی حکمت کے امین تھے۔ نیز حدیث کی بصیرت و فہم میں اپنے استاذ مکرم حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے فنِّ حدیث میں خوشہ چیں تھے۔ اس لئے تینوں نسبتوں کا ظہور آپ کی شخصیت میں نمایاں ہوا اور آپ کی تحریر و تقریر کی روانی، سلاست ، اثر انگیزی اور حکم و نکتہ آفرینی ان خصوصی نسبتوں کی عکاسی تھی۔ یہ آپ کی قوت استدلال ہی تھی کہ احکام منقولہ اور تشریعی امور کو آپ واضح کرتے تو اللہ کی حکمت و دانش پر اس اندازمیں روشنی ڈالتے کہ عقل و فکر مبہوت ہوکر حیرت و وجد کی دوگونہ کیفیت میں کھوجاتا۔ یہ حق تعالیٰ کا فضل اور نسبتِ قاسمی کا وہ مسلسل فیضان تھا جو آپ کے خطبات و تصنیفات میں کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوتاہے۔ دارالعلوم کے عظمت و وقار کے لئے آپ کا آخری عظیم کارنامہ اجلاس صد سالہ کا انعقاد ہے جس نے