حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
انداز مثبت او رتعمیری ، جس میں تحقیق بھی ،تدقیق بھی، تنقید بھی، تنقیح بھی ،تفسیر بھی، تشریح بھی، تحلیل بھی، تجزیہ بھی، ارشاد و اصلاح بھی، افہام و تفہیم بھی ، تنبیہ ونصیحت بھی، او رجدید سائنسی انکشافات بھی، زبان کی حلاوت ،بیان کی ملاحت، لب و لہجہ کی جاذبیت، حکمت آفرینیوں کی طراوش اور دقیقہ سنجیوں کی بارش مزید برآں !گویاشاعرمشرق کی اس آرزواور دعا کاحرف بہ حرف مصداق ؎ دیکھے تو زمانے کو اپنی نظر سے افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے خورشید کرے کسب ضیاء تیرے شرر سے ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے دریامتلاطم ہوں تری موج گہر سے شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے جن موضوعات کو آپ کے خامہ عنبر شمامہ نے چھو لیا، علم و تحقیق سے مالا مال اور فکر و بصیرت سے نہال کردیا، پاکیزہ تشریحات ،نفیس تمبیہات، لطیف توجیہات، اور عمیق اشارات سچ ہے کہ جو پاکیزگی، نفاست، لطافت آپ کے نام میں تھی وہ آپ کے کام میں بھی تھی، جوسنجیدگی ، متانت اور شرافت، مزاج میں تھی ،وہ تحریر وتقریر، اور ہرجنبش قلم میں بھی تھی، جو حکمت ، بصیرت اور دقیقہ آفرینی ذہن میں تھی وہ ایک ایک لفظ میں بھی جو ذخیرہ معلومات، او رعلوم وفنون کاخزانہ دماغ میں تھا وہ تحریر خطاب اور تصنیف وکتاب میں بھی، جو سوز وگداز دل میں تھا ،وہ الفاظ میں بھی، ایمان ویقین کی جو حرارت سینۂ بے کینہ میں تھی وہ اظہار وبیان میں بھی ،جو خلوص ،للٰہیت اورخاکساری طبیعت میں تھی اس کا عکس اظہار خیال میں بھی ؎ یہ آبجو کی روانی یہ ہمکناریٔ خاک مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ اُدھر نہ دیکھ ادھر دیکھ اے جوان عزیز کہ بلند زورِد دروں سے ہواہے فوّارہ اس دیدہ ور شخصیت جس کی آنکھوں میں صدیوں کے علوم کمال ایک چمن ،صدرنگ، دانش و آگہی کی ایک کائنات، اورتجربات و مشاہدات کی ایک دنیا آبادتھی ؎ ہم لئے پھرتے ہیں آنکھوں میں چمن اے باغباں جس طرف اٹھی نگاہِ شوق گلشن ہوگیا بالفاظ دیگر یوں بھی ؎ نہ بصحرا سرے دارم نہ باگلزار سودائے نہ ہرجا می روم از خویش می جوشد تماشائے کبھی سپاٹ و سنگلاخ موضوعات کی زمین سے موتی بر آمد کیے او رکبھی کانٹوں ہی سے گلدستے تیار