حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مخالف کو بھی سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ لاہور کاایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب علماء دیوبند کے خلاف پروپیگنڈے سے بڑے متاثر تھے، علماء دیوبند سے برگشتہ اور طرح طرح کی بدعتوں میں مبتلا تھے، اتفاق سے مولانا لاہور گئے اوروہاں ایک اہم مقام پر آپ کے وعظ کا اعلان ہوا، یہ صاحب خود سناتے ہیں کہ میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ان کے وعظ میں اس نیت سے پہنچا کہ انہیں اعتراضات کا نشانہ بنائوں گا اور موقع ملا تو اس مجلس کو خراب کرنے کی کوشش کروں گا، ابھی تقریر شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اول تو حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ کا معصوم اور پُرنور چہرہ دیکھ کر ان کے ارادوں میں زلزلہ سا آگیا، دل نے گواہی دی کہ یہ چہرہ کسی گمراہ کا نہیں ہو سکتا، پھر جب وعظ شروع ہوا اور اس میں دین کے حقائق و معارف سامنے آئے تو پہلی بار اندازہ ہوا کہ علم دین کسے کہتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ تقریر کے ختم ہونے تک میں حضرت مولانا کے آگے موہوم ہوچکا تھا۔ اپنے پچھلے خیالات سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے بزرگان دین کے بارے میں بدگمانیوں سے نجات عطا فرمادی۔ (۱) برصغیر کا تو شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو، جہاں حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی آواز نہ پہنچی ہو، اس کے علاوہ افریقہ، یوروپ اور امریکہ تک آپ کے وعظ و ارشاد کے فیوض پھیلے اور ان سے نہ جانے کتنی زندگیوں میں انقلاب آیا۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندویؒ ،حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ان کو نبیرہ بانی دارالعلوم دیوبند، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی نسبت گرامی کا شرف حاصل تھا اور وہ نصف صدی تک مسلسل اس مؤقر اور عظیم ادارہ دارالعلوم دیوبند کے منصب اہتمام پر رہے، ان کے اہتمام میں اس ادارہ نے ایسی ترقی کی جو اس کے ابتدائی دور دیکھنے والوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی، انہوں نے بڑے بحرانی موقعوں پر اس ادارہ کی حفاظت اور رہنمائی کی، انہوں نے اپنا نام اور زندگی اس ادارہ کے نام اور زندگی سے وابستہ کردی تھ کہ ان میں ایک کا تصور دوسرے کے ساتھ آتا تھا۔ انسان کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف سننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور سخت سے سخت بات برداشت کرے، راقم نے حضرت مولانا صاحب کو اس معاملہ میں بہت عالی ظرف اور قوی الارادہ پایا، واقفیت رکھنے والے پورے حلقہ میں یہ بات مسلمانوں میں سے ہے کہ حکیم الاسلامؒ نہایت کریم النفس، بڑے شیریں اخلاق، نرم خو، نرم رو اور نرم گفتگو تھے۔ اقبال نے جو کہا ہے: نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو