حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
۱۳۳۹ھ میں حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت ہوئے، شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ۱۳۵۰ھ میں حضرت تھانویؒ سے اجازت و خلافت سے سرفراز فرمائی گئے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی شخصیت زمانی رقبہ کے لحاظ سے بھی بہت وسیع اور جامع تھی اور معنوی لحاظ سے بھی، زمانی رقبہ تو ۸۸سال کا ہے جس میں ابتدائی زمانہ نکال دیا جائے تو بھی ستر سال کے قریب ہوتے ہیں ، معنوی رقبہ اس لئے وسیع ہے کہ علم و فضیلت، بصیرت، وسعت علم اور علم کی پختگی اور رسوخ، خدمت دین اور اس کے ساتھ اصلاح و وعظ اورشاد، عوام سے رابطہ، تربیت و دعوت، بیعت و ارشاد، ان سب پہلوئوں اور گوشوں پر ان کی زندگی محیط تھی، واقعہ یہ ہے کہ شاید کم سے کم ہندوستان میں کسی علمی و دینی شخصیت کو کم ایسی ہردلعزیزی، عام شہرت و مقبولیت اور مختلف دینی اداروں اور جماعتوں کا اعتماد حاصل ہوا ہوگا، جو ان کو حاصل تھا۔ اس کے ساتھ ان کو طویل عرصہ تک دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم و جلیل اور بین الاقوامی شہرت کے ادارہ کی خدمت اور ترقی کا موقع ملا، ان کی اس عام مقبولیت اور جامعیت اور ان کی ذات کا اختلافات سے بالا تر ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت کے لئے روز اول سے ان کی وفات کے دن تک ان سے زیادہ موزوں اور متفق علیہ صدر نظر نہیں آیا اور وہ اس عہدہ پر باتفاق آراء اس کی تاسیس اور قیام کے پہلے دن سے وفات کے دن تک رہے۔ حکیم الاسلامؒ کی ذات گرامی دارالعلوم دیوبند کی اس بابرکت دور کی دل کش یادگار تھی جس نے حضرت شیخ الہندؒ، حضرت تھانویؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اور شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی کا جلوہ جہاں آراء دیکھا تھا، جس ہستی کی تعلیم میں علم و عمل کے ان مجسم پیکروں نے حصہ لیا ہو، ان کے اوصاف و کمالات کا ٹھیک ٹھیک ادارک بھی ہم جیسوں کے لئے مشکل ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے پیکر میں معصومیت، حسن اخلاق اور علم و عمل کے جونمونے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں ان کے نقوش دل و دما سے محو نہیں ہو سکتے۔ حکمت دین کی جو معرفت اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کو عطا فرمائی تھی، حضرت حکیم الاسلامؒ اس کے تنہا وارث تھے، اہل علم اس وقت بھی تھے اور اب بھی ہیں لیکن یہ امتیاز جو حضرت ؒ کو حاصل تھا، وہ ان کے دور میں دوسرے علماء کو حاصل نہیں تھا، انہوں نے علومِ قاسمی کو اپنے انداز میں اتنا آسان بنا کر پیش کیا کہ ان کی تحریر و تقریر اور ان کی زندگی حکمت قاسمیہ کی تفسیر بن گئی۔ خطابت و تقریر کی صلاحیت حضرت مولانا میں بدرجۂ کمال موجود تھی۔ ہر موضوع پر ہر طرح کے مجمع میں اس طرح خطاب کرنا کہ ان کی بات دلوں کو چھوتی ہوئی چلی جائے، ان کی تقریر کی قوت تاثیر، مخالف سے