حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
کہ حضرت آپ کے اس جاہل مولوی (حقانی صاحب) پر روک لگادو یہ ہمارے علماء کو برا بھلا کہتا ہے۔ جواباً حضرت حکیم الاسلامؒ نے فرمایا بھائی ہم تمہارے بے شمار جاہلوں کو برداشت کرتے رہتے ہیں تم بھی ہمارے ایک جاہل کو برداشت کرلو۔ ایک مرتبہ ایک میزبان صاحب نے مزید کھانا کھانے پر اصرار کیا تو حضرت نے جواب دیا بھائی کھانے کا تعلق رغبت سے ہے ترغیب سے نہیں ۔ اس طرح حضرت حکیم الاسلامؒبڑے جچے تلے الفاظ کا استعمال کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ اپنے زمانہ کے تمام اکابر علماء کرام کی نظروں میں منظور نظر اور ہردلعزیز تھے، حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے خلافت سے نواز اتھا۔ حضرت شیخ زکریا صاحبؒ کے یہاں خاص مقام تھا۔ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ کے یہاں جلال آباد پہنچے تو مسجد نئی تعمیر ہوئی تھی دیکھ کر فرمایا مسجد بہت وسیع ہے، بانی مسجد بھی مسیح ہے۔ اس طرح ملی جماعتوں اور تنظیموں میں بھی بڑ ی اہمیت دی جاتی تھی۔ ان جماعتوں کو اپنے اکابر کا ورثہ شمار کرتے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہرالعلوم سہارنپور سے خصوصی لگائو تھا۔ وہاں کے پروگرام میں شرکت فرماتے اور اپنے حکیمانہ خطبات سے فیضیاب کرتے تھے۔ ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے دور میں اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے ہوا کرتے تھے۔ غیر مسلموں کو ان کے مذہبی طور و طریق کے مطابق عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد جب انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو انہوں نے مسلمانوں کے لئے مسلم پرسنل لاء کے عنوان پر ایک محدود قانونی حیثیت دے کر مسلمانوں کا پرسنل قانون کا درجہ دے دیا۔ جواَب مسلم پرسنل لاء کہلاتا ہے۔ مسلم پرسنل کا اِطلاق نکاح، وراثت، حضانت، وصیت، ہبہ وغیرہ معاملات تک محدود ہے۔ لیکن بعض مرتبہ معاملات تک محدود ہے۔ عدالتیں مسلمانوں کے عائلی معاملات میں اسی قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں ۔ لیکن بعض مرتبہ ان عائلی مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے جج صاحبان غیر شرعی فیصلہ صادر کردیتے ہیں اور بعض وقت اسلامی قانون کی بے جا تشریح کر دیتے ہیں ۔ جس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ غیر شرعی فیصلہ مسلمان قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس کا لازماً نتیجہ احتجاج کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں شاہ بانو کیس کی غلط تشریح، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش، تعدد ازدواج کا شوشہ، متبنیٰ (لے پالک بل) وغیرہ غرضیکہ مختلف موضوع پر مسلم پرسنل لا میں تبدیلی لانے اور اسلامی قانون میں مداخلت کی کوشش کی گئی۔ مسلم پرسنل لاء میں بیجا مداخلت کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی علماء کرام و دانشوران نے محسوس کیا کہ اگر ان حساس مسائل و واقعات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو یہ واقعات ایک دن نہایت