حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مشرع سفید داڑھی آئینۂ جما ل پر بزر گا نہ جلا ل کی مینا کا ری ، سر پر عا لمانہ ہیئت کے کٹے ہو ئے سفید بال اور اس پر اونچی دیوار کی دو پلّی طیب کیپ گو یا:ولہ الجوار المنشئت فی البحر کا الا علا م:بدن پر موسم کے مطابق سر دوگر م فسٹ کلر کی شیر وانی ، نزاکت و نفا ست کی کہا نی ، بیش قیمت کپڑے کا لمبا کر تہ اور گول مو ری کا پا جا مہ ، تر اش و خراش اور لبا س میں بزرگی کا خبر نامہ ، اس قلمی خا کے کی عظیم شخصیت کو دیوبند کے عوام و خواص مہتمم صاحب اور با ہر کی دنیا میں لو گ’’حکیم الا سلا م ‘‘کے بلند لقب سے پکا رتے تھے وہ منھ کھو لے تو لب گل سے پھو ل جھڑتے اور جب وہ نہیں بولتے تو صدف میں مو تی پلتے تھے ، ان کے لہجے کا تر نم ،شملہ کی پہاڑی ندیوں کا جلتر نگ اور کشمیر کے آبشار وں کی مو سیقی تھی، اور بول بو ل کی مٹھاس قندوشکر جیسی تھی،ان کی تقریر علم وفن کی خشک زمین کے لئے بر سات اور تحریر قا ری کے دل پژمر دہ کے واسطے آب حیا ت تھی، لفظ لفط میں علم وحکمت کا گہراور جملے جملے میں معرفت کا سمندر پو شیدہ ہو تا تھا،دو تین گھنٹے کی تقریر دلپذیر اسرار شریعت کی حکیما نہ تعبیر و تفسیر او رکمال یہ کہ ہر ایک کے لئے پر اثر و بے نظیر ہو تی تھی، ہر با ت میں حکمت اور ہر حکمت میں کو ئی با ت پید ا کر لینے کی گر انما یہ دولت و حست ہے، پنڈت دیا نند سر سوتی نے حجۃ الا سلا م مو لانا محمد قاسم نا نو تو یؒبانی دارالعلو م دیوبند کی تقریر سنکر کہا تھا کہ ان کی زبان پر سر سوتی(علم کی دیو ی)بولتی ہے اور اگر وہ ان کے پو تے حکیم الاسلا م کی با ت سنتے تو ضرور یہ کہتے کہ ان کے شبد شبد میں سر سو تی رس گھولتی ہے۔ حکیم الا سلامؒ جسمانی روگ کے طبیب نہیں بلکہ لا علا ج روحانی مر ضوں کے خاندانی حکیم تھے، آپ کے حکیمانہ کلما ت نے سینکڑوں دلو ں میں ایمان و یقین کا بیج بو یا او ر ایمان و اسلا م کے ہزاروں نازک پو دوں کو آب حکمت سے سیر اب کر کے آپ نے تنا ور درخت بنا یا ،عقلی ونقلی شکو ک وشبہا ت کی ہزاروں گرہیں آپ کے نا خن علم و حکمت نے آن کی آن میں کھو ل دی تھیں ، حکمت قا سمی کی بلندیوں تک آپ کی رسائی اوران کے علو م و معارف پر آپ کو عبور اور دستر س حاصل تھی، سننے والے جب آپ کی بات سنتے تو سر دھنتے اورمجلس سے اپنی تنگ دامانی کا گلہ لے کر اٹھتے تھے اس لئے کہ : دامانِ نگہ تنگ و گل، حسنِ تو بسیا ر گل چیں بہار تو زداماں گلہ دارد علی گڑھ مسلم یو نیو رسٹی کے ما ڈرن ما حو ل میں آپ کی ’’سائنس اور اسلام ‘‘او رڈارون کے نظریۂ ارتقاء کی جگہ انسانی عظمت کا مسئلہ اور نئی تہذیب و تمدن کی چکا چوند میں ’’آفتاب اسلام ‘‘کا جلو ہ با لکل ہمیشہ نمایا ں دکھا ئی دیتا رہے گا۔ مجھے کچھ معتمد اہل ِ علم نے بتلا یا کہ ۲۵؍۳۰بر س پہلے میر ٹھ شہر کے اند ر حکیم الاسلا مؒ کی ایک ہفتے کی تقریر سے