حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
۱-مسائل پرانے ہوں اور دلائل نئے ہوں ۔ ۲- تبدیلیٔ نصاب کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنے مخاطبوں کی زبان میں اپنے گھر کی چیز اُن کے سامنے پیش کردیں ۔ ۳-وقت کے تقاضوں کے تحت تعبیراتی فنون اور کتب بدلتی رہی ہیں اور بدلتی رہیں گی۔ ان میں اول الذکر جملہ اتنا جامع ہے کانفرنس مذکور کے ہر آنے والے مقرر نے اسی کی جامعیت اور معقولیت کو سراہا، علامہ سیدسلیمان ندویؒ نے فرمایا کہ ’’اس سے زیادہ جامع جملہ کوئی نہیں ہے جو تغیر نصاب پر جامع روشنی ڈال سکے۔‘‘ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے فرمایا: ’’مسائل قدیم ہوں اور دلائل جدید ہوں ‘‘ ہمارے اُن تمام تعلیمی مقاصد کا آئینہ دار اور لب لباب ہے جو ہمارے پیش نظر ہیں ، یہ اس قدر جامع تعبیر ہے کہ آپ کتنی شرحیں کرتے چلے جائیں تفاصیل کے دفتر تیار کردیں لیکن کوئی مقصد بھی اس جملہ سے باہر نہ ہوگا۔‘‘ اس جملہ کا تحلیل و تجزیہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے پرانے مسائل کیا ہیں ؟ وہ تو ہمیں معلوم ہی نہیں ، اُن مسائل کے نئے دلائل کیا ہیں اور کس زبان میں ہیں ، انہیں معلوم کرنے کی ضرورت ہے آج ہر صاحب علم اس با ت سے واقف ہے کہ آج کے علمی میدان کے دلائل یا آلات جنگ سائنس، ریاضی، جدید علم ہیئت وغیرہ ہیں ، انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے اور مدارس دینیہ کے نصاب اور مدارس دینیہ کے طریقِ تعلیم میں کچھ تبدیلی کرکے ان علوم کے لئے کسی نہ کسی درجہ میں گنجائش پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اگر اس طرح کی کتابیں جو مدارس میں چل سکیں دستیاب نہ ہوں تو دیندا ر ماہرین فن سے تیار کرانے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ جو دلائل پرانے ہیں ، جن کی اب کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور زمانہ کے تغیر و تبدل سے اذکار رفتہ ہوچکے ہیں انہیں چھوڑ دینے کی ضرورت ہے مثلاً فلسفۂ قدیم۔ اسی طرح ہر کوئی جانتا ہے کہ مذکورہ نئے دلائل کی ایک زبان ہے اور وہ ہے انگریزی، لہٰذا نئے دلائل کو اصل ماخذ سے سیکھنے اور سمجھنے کے لئے ہمارے مدارس دینیہ کے طلبہ کو انگریزی جاننا اور سیکھنا بھی ضروری ہے اور اس حد تک ضروری ہے جس سے وہ نئے دلائل کو اصل ماخذ سے لے سکیں یعنی صرف اتنی انگریزی جاننے سے کام چلنے والا نہیں ہے کہ تار پڑھ لیں ، منی آرڈر فارم بھرلیں ، ریزرویشن کرالیں اور خطوط پر پتہ لکھ لیں ۔