حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ڈھال لیا تھا کہ اخلاق اور نرم خوئی سے بھی حضرت رحمۃ للعالمینؐ کے اسوۂ پاک کی جھلک نمایاں ہو۔ یہ بھی اتباع رسولؐ کا جذبۂ بے اختیار ہی تھا کہ انتہائی ناخوشگوار صورتِ حال میں بھی کبھی چیں بجبیں نہ ہوتے، نہ نرم خوئی کو ترک کرتے حالاں کہ آ پ کے والدِ مکرم حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمہ اللہ کی مزاجی افتاد کا رنگ نرم و گرم بہم آمیز تھا، اُن کا پُر جلال انداز رعب و دبدبہ سنتِ فاروقی کا نمونہ تھا۔ اسی طرح آپؒ کے چھوٹے بھائی مولانا محمد طاہرؒ صاحب قاسمی کی گرمیٔ مزاج بھی مشہور و معلوم تھی مگر اس کے برخلاف والدِ مکرم حضرت حکیم الاسلام رحمہ اللہ کا حلم، آپ کی بردباری، نرم مزاجی اور نرم گوئی مثالی انداز کی تھی۔ لگتا تھا کہ غصہ کی خو آپ کو چھو کر بھی نہیں گذری۔گھر میں بچوں کے شور و شغب یا کسی خلافِ ادب بات پر ایک باپ کبھی نہ کبھی تو سخت سست کہہ ہی دیتا ہے لیکن ہمیں حضرتؒ کے ساتھ گذارے ہوئے وقت میں ایک لمحہ بھی ایسا یاد نہیں جب والد مکرم نے ڈانٹا ڈپٹا ہو۔ ایک ہی گھر کے افراد میں اس قدر مزاجی فرق کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس اعتدالِ طبیعت میں بھی ارادی طور پر اتباعِ رسول کا جذبہ ہی کار فرما تھا۔ جیسا کہ آنحضرتؐ کی مجلس مبارک میں کوئی خلاف مزاج بات کسی سے سرزد ہوجاتی تو آپؐ اس شخص کو برسر مجمع نہ ٹوکتے بلکہ لطیف پیرایہ اختیار فرماتے تاکہ اُس کی سبکی بھی نہ ہو اور وہ شخص سمجھ بھی لے۔ غرض اَلْعَادَۃُ جِبلّۃ الثانیۃ کے مطابق جب انسان کسی چیز کا خوگر ہوجاتا ہے تو اُس سے بے اختیارانہ طور پر بھی اسی عادت کا ظہو ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی مثال اسی مقولہ کے مطابق ہے کہ آپؒ کو حق تعالیٰ نے عشقِ نبویؐ اور اتباعِ رسولؐ کا ایسا زبردست جذبہ و شوق عطا فرمایا تھا۔ آپؒ نے اپنی رفتار و گفتار، عادات و طریق حتی کہ مزاج و طیبعت کو بھی اسی مبارک اسوہ کا تابع کر دیا تھا اور اس طرح آپ کے ہر عمل سے بے اختیارانہ طور پر محبوبِ کبریا کی سنتیں زندہ ہونے لگیں ۔ حق تعالیٰ نے حضرت حکیم الاسلامؒ کی شخصیت کو غیر معمولی محاسن اور صفات سے آراستہ فرمایا۔ اس طرح آپ کی ذات ان خوبیوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے علماء و عوام اور قدیم و جدید کے درمیان محبوبیت اور احترام کا مرکز بن گئی۔ حضرت کی ہمہ جہت شخصیت نے ایک فقیہ، ایک عارف، ایک عالم، ایک خطیب، ایک شیخ اور ایک مشفق مربی کی حیثیت میں اطرافِ عالم سے شایانِ شان خراجِ تحسین و آفرین حاصل کیا اور دانشوروں اور عوام کے زبان و قلم اعترافِ عظمت کے لئے اپنی صلاحیتیں لٹانے کے باوجود اپنے صحیح جذبات و احساسات کو ظاہر کرنے کے لئے تشنگی محسوس کرتے رہے۔ ایک فقیہ کی حیثیت سے حضرتؒ کی تحریریں نازک مسائل میں اُن نکات کو تلاش کر لائی ہیں جو آپ کی