حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
(۱۰)دورِ حاضر میں ’’سیاست‘‘ جس چیز کانام ہے وہ بے حد گندی چیز ہے،مدرسہ کے مہتمم کے لیے تمام تر سوجھ بوجھ اور علم وفضل کے ساتھ دورِ حاضر کی بدنام زمانہ سیاست کی گندگی سے خود کو پاک وصاف اور اس سے دور رکھنا بے حد ضروری ہے،ورنہ تحزّب اور گروہ بندی (جوسیاست کا مزاج ہے) سے مدرسہ کو محفوظ نہ رکھ سکے گا۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مدرسہ اور تعلیم گاہ کا ماحول کامل طورپر یکسوئی کا طالب ہوتا ہے جب کہ سیاسی زندگی یکسر شورش اور ہلچل کا نام ہے۔ ’’علمی زندگی کی جمعیتیں اور سیاسی زندگی کی شورشیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں ، پنبہ وآتش میں آشتی محال ہے‘‘۔ علمی زندگی اور عالمانہ ماحول میں سیاست کی آمیزش گویا متاعِ علم وفکر کو برق ِ خرمن سوز کے حوالہ کرنا ہے۔ علمی مزاج کے حامل بابائے سیاست مولانا ابوالکلام آزاد مرحومؔ نے مذکورہ بالا الفاظ میں خود اپنا ماتم کیا ہے۔ (۱۱)ایک دینی مدرسہ اور مرکزی ادارہ کے منصب اہتمام پر فائز شخص کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ نسبت ِ احسانی کا حامل ہو۔ یعنی ایک عرصہ دراز تک کسی شیخ باطن کی صحبت میں رہ کر رذائل کے ازالے پر سخت محنت کے ذریعے اپنے باطن کو مزکی اور خصائل حمیدہ سے مجلّٰی کیے ہوئے ہو ، خوب واضح رہے کہ مدارس کے اس نظام اور ساری تعلیم وتعلّم کا مقصد ہی حقیقتاً تربیت کے ذریعے تزکیہ اور نسبت ِ احسانی کا حصول ہے، یہ نہیں تو کچھ نہیں ، سارا نظام ِ تعلیم محض لغواور بیکار ہے۔ اوپر قدرے اختصار کے ساتھ منصب ِ اہتمام کی اہمیت کے پیش نظر گیارہ اوصاف ذکر کئے گئے اب ہم ذیل میں ان گیارہ اوصاف کے حوالے سے حکیم الاسلام ؒ کی شخصیت کی طرف مختصر اشارات کی کوشش کریں گے۔ جن مدارس کو خاص طور پر مرکزی اداروں کو ایسے اوصاف کی حامل شخصیات دستیاب ہوں گی، حقیقتاً وہی ادارے ترقی کرسکیں گے اور خاطر خواہ بہتر نتائج کے حامل ہوں گے۔ ہم جب ان اوصاف کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتاہے کہ کس طرح یہ ساری چیزیں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب ؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے مزاج وطبیعت اور سرشت وجبلت میں داخل اور رچی بسی تھیں ۔ دارالعلوم دیوبند جسے الہامی مدرسہ کہا جاتاہے، خاص طور پرملت ِ ہندیہ پر اللہ رب العزت کا فضل وانعام ہے۔اس مرکزی ادارہ کے انتظام وانصرام کے لیے ایسی ہی ہمہ صفت موصوف شخصیات میسر رہیں ۔ حکیم الاسلام حضرت مہتمم صاحبؒ صحیح معنی میں نمونۂ اسلاف اور یادگار اکابر تھے، حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ کے علوم نقلیہ وعقلیہ کے حقیقی جامع اور وارث اور حکمت ِ قاسمی کے کامل امین تھے۔