حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
صلاحیت رکھتا ہو،تاکہ بوقت ضرورت اگر کسی بھی جماعت کا استاذ غیر حاضر ہوتو مہتمم اس کی کتاب باسلوب احسن پڑھا سکے، اور استاذ کی غیر حاضری سے تعلیم متاثر نہ ہو، نظم واہتمام کی یہ بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ خوب واضح رہے کہ مدرسہ دراصل نام ہے تعلیم وتعلّم اور تدریس وتدرس کا، تدریسی نظام میں اختلال کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے۔ (۲) اگر طلبہ میں کوئی غلط رَویانازیبا رجحان پیدا ہورہا ہوتو مہتمم اپنے مؤثر خطاب عالمانہ اور حکیمانہ انداز ِ بیان کے ذریعے اس غلط رُخ سے انھیں پھیر سکے۔ (۳) ایسی عمدہ فہم وفراست کا مالک ہو کہ بوقت ِ ضرورت اساتذہ اور تعلیمی وتدریسی عملہ کو افہام وتفہیم کے ذریعے انتشار وافتراق سے روک کر انھیں باہم متحد رکھ سکے، اپنی اس بدرجۂ اتم صلاحیت کے ذریعہ مدرسہ میں اتفاق واتحاد کی فضا قائم رکھ سکے، ایسی پر سکون فضا تعلیم وتدریس کے لیے از بس ضروری ہے۔ (۴) واردین وصادرین جو مدرسہ کی زیارت کے لیے باہر سے آتے جاتے ہوں ان کے سامنے مدرسہ کا ایسا جامع اور دلکش تعارف پیش کرسکے جس سے خارجی دنیا سے ربط وارتباط مضبوط رہے۔ (۵) وعظ ونصیحت اور تقریر وخطابت کی بھرپور صلاحیت وقابلیت رکھتا ہوتا کہ وقتاً فوقتاً باہر سے آنے والی دعوت کو قبول کرکے اسفار کرسکے اور اپنے اس وصف کے ذریعہ مدرسہ کا کاز اورحلقۂ تعارف وسیع تر ہوسکے۔ (۶) مہتمم کے لیے وصف ِمضمون نگاری اور تصنیف وتالیف کی صلاحیت کا حامل ہونا بھی ضروری ہے،تاکہ بوقت ِ ضرورت اس رُخ سے بھی مدرسہ کا تعارف قوم وملت کے سامنے پیش کرسکے اور اس سے ملت کو فائدہ بھی پہنچے۔ (۷) مہتمم کے لیے وصف ِ تدبر سے موصوف ہونا ضروری ہے، تاکہ پیش آمدہ مسائل کا جذبات سے بالاتر ہوکر صحیح رُخ سے جائزہ لے سکے اور مدبرانہ فیصلہ کرسکے۔ (۸)مہتمم کے اندر وصف رافت اور مروّت بھی بے حد ضروری ہے تاکہ تدبر اور تفکر کے ساتھ کئے گئے حاکمانہ فیصلے حکیمانہ انداز میں نافذ کئے جاسکیں جو ظلم وزیادتی سے پاک ہوں ۔ (۹) مہتمم کو وصفِ جرأت سے موصوف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ اپنے مدبرانہ فیصلہ، بے لاگ اور بے خوف ہوکر نافذ کرسکے، جرأت نہ ہوگی تو بہتر سے بہتر فیصلے۔ فقدانِ ہمت کے باعث ٹھنڈے بستے میں پڑے رہ جائیں گے۔