حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے تحفظ کیلئے مذہبی معاملات میں مداخلت کا ارادہ ترک کردیا اور کسی طرح کی تبدیلی کی بجائے مسلمانوں کیلئے ’’قانون شریعت‘‘ اور ہندوئوں کیلئے ’’دھرم شاستر‘‘ پر عمل آوری کو جاری کردیا۔ اسی دوران ۱۹۳۶ء میں ایک عدالت نے ہندو رواج کے مطابق وراثت میں بہن کو حصہ دینے سے انکار کردیا، ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ اسلامی قانون کے خلاف تھا اس لئے اس وقت کے علماء کرام نے تحفظ شریعت کے عنوان سے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی اور زبردست جدوجہد کی، ان کی کوششیں بارآور ہوئیں اور ۱۹۳۷ء میں ’’شریعت ایپلی کیشن ایکٹ‘‘ بنا جس کے مطابق مسلمانوں کیلئے اس کی گنجائش ہوئی کہ وہ اپنے عائلی قوانین (نکاح، طلاق، خلع، ظہار، فسخ نکاح، حق حضانت، ولایت، میراث، وصیت، ہبہ اور شفعہ) میں شریعت اسلامیہ کے پابند رہیں ، عدالت کو پابند کیا گیا تھا کہ فریقین مسلمان ہوں تو شریعت اسلامی کے مطابق فیصلہ ہوگا ، خواہ ان کا عرف و رواج کچھ بھی ہو، بہر صورت قانونِ شریعت کو اس پر بالادستی حاصل ہوگی۔ ۱۹۴۷ء میں ملک برطانوی غلبے سے آزاد ہوا تو ملک دو حصوں میں منقسم ہوگیا، ہندوستان کا مغربی اور مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نئی مملکت بنا، ہندوستان میں رہنے والوں میں ہر مذہب کے ماننے والے موجود تھے، ہندوئوں کی بڑی اکثریت تھی اور دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی ان کے علاوہ عیسائی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب کے ماننے والو ں کی بڑی تعداد رہی، اب نہ مسلمانوں کی حکومت باقی رہی، نہ برطانوی استعمار، ملک کو منظم اور متحد رکھنے اور تمام فرقوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں ان بنیادوں پر حکومت کی تشکیل ہوئی، نئے ملک کیلئے دستور سازی کا مرحلہ پیش آیا، تو اسکو ایک جمہوری اور عوامی ملک قرار دیا گیا، جسکی تشکیل برطانوی طرز حکومت پر ہوئی۔ عوام کے منتخب نمائندوں پرمشتمل ایوان قانون ساز ادارہ قرار پایا، آئین اور دستور بنائے گئے۔ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کی سربراہی میں بنیادی اور رہنما اصولوں پر مشتمل دستور بنا، جس میں دفعات کے تحت حقوق، عدل و انصاف اور ملک کیلئے قوانین کی تصریحات موجود ہیں ، ان میں سیکولرزم کو بنیادی حیثیت دی گئی، یعنی غیر مذہبی حکومت، دستور ساز کمیٹی نے بنیادی اصولوں میں ملک کے تمام شہریوں کو اپنے مذہب، تہذیب اور عائلی قوانین پر عمل کی آزادی رکھی، چنانچہ دفعہ ۲۹ میں وضاحت ہے کہ تمام شہریوں کو اپنے رسم و رواج اور شریعت کے مطابق عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔ اسی کے ساتھ دستور میں کچھ رہنما اصول بھی طے کئے گئے تھے جن میں ایک دفعہ (۴۴) تھی جس کے مطابق حکومت کو ہدایت یا اجازت دی گئی کہ وہ پورے ملک میں ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کی کوشش کرے، اس رہنما اصول میں مسلمانوں کے عائلی قوانین (مسلم پرسنل لاء) میں مداخلت کی گنجائش موجود تھی، اسلئے مسلم ممبران اور