حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حصہ‘‘ کو اپنے عموم کے ساتھ جوں کا توں رکھنے کی صورت میں میرے لیے چوں کہ مصروفیات اور کم مائیگی کے باعث نہ موضوع کے ساتھ انصاف ممکن تھا اور نہ ہی اس کی وسعتوں کو سمیٹنا،اس لیے میں نے اپنے عمل کو مختصر اور آسان بنانے کے لیے ضروری سمجھا کہ کسی ایک ہی شخصیت کو موضوع بنایا جائے چناں چہ اس سلسلہ میں تھوڑا غوروفکر کیاگیا اور نتیجہ کے طور پر مذکورہ بالا عنوان کو ترجیح حاصل ہوگئی۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی شخصیت گوناگوں اوصاف وامتیازات کی حامل تھی، انھوں نے اپنے ان اوصاف وامتیازات کو استعمال کرتے ہوئے دین وملت کی بے مثال خدمات انجام دیں ، وہ علمی وعملی دونوں سطحوں پرسر گرم رہے اور دونوں ہی کے تعلق سے اپنی الگ تاریخ بنائی، دارالعلوم دیوبند کے منصب اہتمام وانتظام کی گراں بار ذمہ داریوں اور اس میں شبانہ روز اشتغال اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سرپرستانہ مصروفیات کے باوجود ان کا اشہب ِ لسان وقلم اپنے معمول کی تیز رفتاری کے ساتھ زندگی بھردوڑتا رہا۔جس کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زائد علمی شہ پارے اسلامی مکتبات کی زینت بنے اور وہ آج تشنگانِ علم کی سیرابی وآسودگی کا ذریعہ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت حکیم الاسلام ؒ جیسی عبقری اور متنوع الجہات شخصیت پر اب تک بہت کم کام ہوسکا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ آپ کی شخصیت اور آپ کی دینی وملی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے دیوبند او ردیوبند سے باہر متعدد علمی اکیڈمیاں قائم کی جاتیں اردو کے علاوہ دوسری اہم زبانوں عربی انگلش وغیرہ میں آپ کی منتخب پرُ مغز اور اپنے موضوع پر نادر کتابوں کا ترجمہ کرایا جاتا اور ان کی اشاعت وتوسیع کی جاتی۔ یہ دارالعلوم دیوبند سے نسبت اور اس کے اکابر واسلاف سے عقیدت ومحبت رکھنے والے ہر فرد کا فریضہ ہے۔ اس وقت ان سطور میں حضرت حکیم الاسلامؒ کی پہلو دار شخصیت کے صرف ایک پہلو ’’خطابت‘‘ پر کچھ اظہار خیال کرنا ہے۔ حضرت کی شخصیت کے تعلق سے یہ موضوع کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ، ضرورت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پر قلم اٹھانے سے قبل آپ کے کل یا بیشتر تقریری سرمایے کا مطالعہ کیاجاتا۔ اس پر تجزیاتی نگاہ ڈالی جاتی، اسی کے ساتھ اس قبیل کی دوسری اہم شخصیات اور ان کے مدوّن لسانی کارناموں کو پیش نظر رکھا جاتا،فنی تقاضوں سے بھی بحث کی جاتی اور نتائج پر گفتگو کی جاتی، اس طرح کے محاکمے اور موازنے کے بعد ہی کسی شخصیت کا متعلقہ موضوع کے حوالے سے امتیاز واضح ہوپاتا ہے۔ میں یہ اعتراف ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی بے بضاعتی کے ساتھ ساتھ کثرت ِ مشاغل کی بناء پر مجھے اس کا موقع نہ مل سکا۔ میں نے بنیادی طور پر(کتاب) ’’خطبات حکیم الاسلام‘‘ کو پیش نظر رکھا ہے، جس کی اب تک دس جلدیں شائع ہوچکی ہیں اسے حکیم الاسلام اکیڈمی دیوبند کی طرف سے مولانامحمدادریس ہوشیارپوری نے مرتب