حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
میں شرکت کو میں ضروری سمجھتا ہوں اور آپ حضرات کی عدم شرکت سے اس کنونشن میں مسلمانوں کے ایک ’’صالح مکتب فکر‘‘کی کمی محسوس کی جائے گی۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی اس قدر افزائی اور اس ربط و تعلق کا یہ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا کہ پھر خانوادۂ فاروقی سے حضرت مولانا عبدالسلام فاروقی صاحبؒ، حضرت مولانا عبدالحلیم فاروقی صاحبؒ اور دارالمبلغین کے استاذ حضرت مولانا قاری محمد صدیق صاحبؒ نے اس کنونشن میں شرکت کی۔ (۵)اور خانوادۂ فاروقی کے حکیم الاسلامؒ کے گہرے ربط و رشتہ کا برملا اظہار تو اس وقت ہوا جب ۱۹۳۸ء میں حضرت حکیم الاسلام لکھنؤ کے ایک رئیس کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے اور حضرت مولانا عبدالحلیم فاروقی صاحب کی اس درخواست کو شرف قبول بخشا کہ قصبہ کاکوری میں ان کے قائم کئے ہوئے نوخیز مدرسہ دارالعلوم فاروقیہ تشریف لے جاکر ادارہ کی ترقی و قبولیت کے لئے دعا فرمادیں ، بعد نماز عصر کا وقت طے ہوا اور حضرت والا نے ازراہِ شفقت اپنے میزبان پر اعتماد کرتے ہوئے مولانا عبدالحلیم صاحب سے فرمایا کہ آپ کاکوری پہنچیں ۔ میں انشاء اللہ مقررہ وقت پر پہنچ جائوں گا اورپھر جب کاکوری سے روانگی کا وقت آیا تو کچھ یار انِ ستم پیشہ نے سواری، ڈرائیور اور راستہ کی خرابی کے حوالوں سے حضرت والا کے خیر سے دارالعلوم فاروقیہ اور قصبہ کاکوری کو محروم کردینے کی تدبیریں کیں ۔ حضرت والا نے اس سازش کو بھاپنتے ہوئے اپنے ’’عمومی مزاج‘‘ کے خلاف سخت رخ اختیار کرتے ہوئے صاف فرمایا کہ ’’یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی پروگرام میں شرکت کئے بغیر میں یہیں سے دیوبند واپس چلا جائوں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ میں یہاں رہ کر کاکوری نہ جائوں اور مولانا عبدالحلیم صاحب کی دل شکنی کروں ‘‘ اور پھر تمام راہیں آسان ہوگئیں اور حکیم الاسلام اپنے وعدے کے مطابق کاکوری پہنچے اور مدرسہ میں چند منٹ ٹھہرنے اور دعا کرنے کے بعد واپس تشریف لائے۔ یہ چند واقعات وہ مشاہدات ہیں جن سے خانوادۂ فاروقی سے حکیم الاسلامؒ کے اس ربط کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے ذاتی جواہر، اخلاقی کمالات، دین اور اہل دین سے الفت، مرتبہ شناسی اور خرد نوازی کے نمونے بھی سامنے آجاتے ہیں ۔ ……v……