حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے دوران ’’طیب منزل‘‘ کی عصر بعد کی مجلس میں برابر حاضری ہوتی، اس کے علاوہ دارالعلوم کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے اپنی مادر علمی کے سربراہ اعلیٰ کی خدمت میں اپنی غرض لے کر بھی کبھی کبھی حاضری ہوتی اور اپنے فخر و اعزاز کے لئے بس یہی کیا کم تھا کہ ہزاروں طلبہ کے درمیان حضرت حکیم الاسلام ؒمجھے بھی پہچانتے تھے اور اس پہچان سے فائدہ اٹھانے کا ایک واقعہ اس وقت بھی یاد آرہا ہے کہ اپنے ساتھی کو (جو غریب اور غیر مستطیع تھے اور ایک کتاب میں نمبر کم آنے کی وجہ سے ان کی امداد موقوف ہو گئی تھی) لے کر ایک ’’خاص اعتماد و زعم‘‘ کے ساتھ دارالعلوم کے دفتر اہتمام میں حاضر ہوا اور امداد جاری کئے جانے کے سلسلہ میں پہلے سے لکھی ہوئی درخواست حضرت والا کی خدمت میں پیش کردی ،حضرت والا نے درخواست دیکھ کر فرمایا، یہ تو ایک کتاب میں فیل ہے۔ ضابطہ کے مطابق ان کا کھانا جاری نہیں رہ سکتا ۔ میں ’’پہچان کے اسی نشہ‘‘ میں عرض کردیا، لیکن حضرت! آپ کو پچاس طلبہ کا کھانا جاری کرنے کا خصوصی اختیار بھی تو ہے؟ جواب میں حضرت والا نے مسکراتے ہوئے فرمایا :اچھا آپ لوگوں کو اس کا بھی علم ہے اور پھر خانوادۂ فاروقی کے اس ایک ادنیٰ طالب علم کی لاج رکھتے ہوئے درخواست پر کھانا جاری کئے جانے کا حکم تحریر فرما دیا، نہ خوشامد کرائی، نہ سفارش طلب کی، نہ ہی معاملہ کو التوا میں ڈالا تو پھر اسے خانوادۂ فاروقی سے حکیم الاسلام کے خصوصی ربط و تعلق کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ (۴) ۱۹۷۲ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام و تشکیل کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے ’’بمبئی کنونشن‘‘ کا دعوت نامہ علمائے دارالمبلغین کے نام بھی آیا، اس وقت کی ’’خاص مصلحتوں ‘‘ کی وجہ سے اس کنونشن اورمجوزہ بورڈ میں شرکت کا دعوت نامہ علمائے شیعہ کو بھی دیا گیاتھا، علمائے دارالمبلغین کو اس کا علم ہوا تو خانوادۂ فاروقی کے اس وقت کے سربراہ حضرت مولانا عبدالسلام فاروقیؒ نے حکیم الاسلامؒ کو خط لکھ کر اس کنونشن میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی رائے سے معذرت کر لی۔ اس کنونشن میں شرکت کرنے والوں کی اور شرکت کی خواہش رکھنے والوں کی کمی نہیں تھی، نہ ہی چند علمائے مبلغین کے شریک نہ ہونے سے کنونشن کی ناکامی کا کوئی اندیشہ تھا تاہم یہ حکیم الاسلامؒ کی قدر افزائی اور خانوادۂ فاروقی سے خصوصی ربط کی بات ہے کہ حکیم الاسلامؒ دیوبند سے سفر کرکے لکھنؤ تشریف لائے اور اپنے خردوں کے سامنے ان کے موقف کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے ’’مصلحت وقت‘‘ کے پیش نظر کنونشن میں ان کی شرکت پر اصرار فرمایا اور یہاں تک فرمایا کہ حضرت امام اہل سنتؒ، ان کے رفقاء اور اخلاف نے مسلمانوں کو ایک ’’فکر صالح‘‘ عطا کی ہے ،جس کے اعتراف میں آپ حضرات کی اس کنونشن