حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
واشگاف انداز میں گفتگو فرمائی وہ بے مثال لازوال اور آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپؒ نے کس بلند آہنگی کے ساتھ فرمایا: ’’آج پرسنل لاء کے نام پر ان تبدیلیوں کا مواد بنام اصلاح وترمیم پیش کیا جارہاہے یہ اصلاح اسی قسم کی ہے جسے قرنِ اوّل کے منافقین ِ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے نعرے کے ساتھ لے کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن عالم الغیب والشہادۃ نے کھلا اعلان فرما دیا: اَلَا اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لَّایَشْعُرُوْنَ‘‘۔ مجھے اس وقت ایک سخت لفظ کہنے پر معاف کیجئے کہ وہ سماج کتنا دیوث ہے جو لاکھوں مائوں بہنوں بیٹیوں کو بازار میں بیٹھنے کی اجازت دیتاہے اور چار شادیوں کی محض اجازت اور وہ بھی خاص شرائط عدل ودیانت سے مشروط اجازت پر اعتراض کرتاہے‘‘۔ جس ملک میں راتوں کے کلب ہوں ۔ مادر ِ وطن کی بیٹیوں کے بدن سے عفت وعصمت کا لباس رات بھراتار کر تار تار کیاجارہا ہو اور خدا کے غضب سے حکومت اور سماج بے نیاز ہو۔ ایسے ملک کے چند ایسے سر پھرے مصلحین کو مسلم پرسنل لاء کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے سوبار خود شرمانا چاہیے تھا جنھیں بے شرم سماج کو ٹوکنے تک کی بھی ہمت نہیں ۔ ان میں اسلام کے فطری اور اعلیٰ وارفع قانون عصمت پر حرف زنی کرنے کی ہمت آخر کہاں سے پیدا ہوئی‘‘۔ بہر حال نعرہ زنوں کا انداز قد ہر لباس میں عریاں ہے،خواہ وہ آئین کا لباس پہن کر آئیں یا سماج اور معاشرہ کی اصلاح کا۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی فرد دین ِ خداوندی میں ترمیم وتبدیلی کا نعرہ بزعم خود کوئی اصولی بات سمجھ کر لگا رہاہے تو میں اس اجتماع کے موقع پر اپنے تمام علماء کرام اور دانشورانِ محترم کی طرف سے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اس عقیدے پر اٹل ہیں کہ جس طرح خدائے بزرگ وبرتر نے اپنے نظام خلق کو اپنی سچی فطرت پر قائم کیا ہے جس میں تبدیلی ناممکن ہے کہلَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ اسی طرح اس نے اپنے نظام ِ امر کو بھی جس کا نام دین ہے، اپنی فطرت کی اساس پر قائم کیا ہے،اس لیے اس میں تبدیلی ممکن نہیں ۔ لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ’’یہ قانون ِ فطرت ہے اور فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی، اگر کوئی زمین، آسمان چاند سورج اورکواکب ونجوم کو نہیں بدل سکتا۔ صرف اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے تو دین کے کلیات وجزئیات احکام وآداب، اخلاق وعقائد معاملات ومعاشرت اور اجتماعی قوانین تک کی فطری حدود کو نہیں بدل سکتا۔ وہ صرف فائدہ اٹھانے کے لیے اتارے گئے ہیں ۔ بدلنے کے لیے نہیں لائے گئے۔ بدلنے کی جب بھی سعی لاحاصل کی جائے گی تو خدائی حدود تو اپنی جگہ قائم رہیں گی لیکن بدلنے والوں کے حق میں سماج