حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دم نازل ہوتی رہتی ہیں ۔ یہ رحم و کرم کی نگاہ ہی نہیں کرتا اور اگر یہ آفات و مصائب انسانوں کے گناہوں کے نتیجہ میں آتی ہیں تو بچے اور معصوم افراد نیک اور دیندار لوگ حتی کہ بے قصور جانور تک اس خدائی عذاب کو بھگتنے کے لئے کیوں مجبور کئے جاتے ہیں ؟ ان کا کون سا گناہ ہے اور کون سا قصور جس کی پاداش میں وہ مبتلائے درد و غم ہوتے رہتے ہیں اور اگر یہ مصائب انسان کو عبرت و سبق دینے کے لئے آتی ہیں تو خدا کو ایسا ظالمانہ اور بے رحیمانہ طریقہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی کوئی دوسرا آسان طریقہ اختیار کرتا جیسے ڈاکٹر کوئی بڑا آپریشن کرتاہے تو کلوروفام سنگھا کر پہلے بے ہوش کردیتا ہے تب آپریشن کرتا ہے تاکہ مریض نشتر کی اذیت نہ محسوس کرے اگر روحانی اسلحہ میں یہ بھی نہیں تو اس کو سوائے بے رحمی اور ظلم کے اور کیا کہا جائے گا؟ اور اس کی کمال قدرت بھی مشتبہ ہوجاتی ہے کہ اس طریقہ کے علاوہ اس کو کسی طریقہ علاج پر قدرت ہی نہیں ہے اس سے زیادہ تو انسان ہی ہے کہ وہ رحم و کرم کا پتلا بن سکتا ہے وہ ایسی دوائیں ایجاد کرتا ہے اور طریقۂ علاج کو کام میں لاتا ہے کہ اس سے اجتماعی وبائیں اور بیماریاں بھی کم ہوجاتی ہیں ، کالرا، طاعون، چیچک، ملیریا کی وبائیں ، ڈاکٹروں کی محنت کے نتیجہ میں بڑی حد تک کم ہوگئیں اور انسانیت کو ان مصیبتوں سے انہوں نے نجات دلادی ورنہ خدا تو پہلے مسلسل یہ بلائیں بھیجتا رہتا تھا۔ اور اگر یہ مصائب انسانوں کی آزمائش اور جانچ کے لئے ہیں تو اس کو علیم و خبیر بھی تو کہا جاتا ہے تو کون سا ایسا راز رہ گیا کہ ہزاروں برس کے بعد بھی اس کو معلوم نہیں ہو سکا اور انسانوں کو مسلسل آزمائے چلا جا رہا ہے، اگر انسان خدا کو چھوڑ کر اپنی عقل اور تجربہ کی رہنمائی میں کام کرے تو اس سے زیادہ آرام میں رہ سکتا ہے، جن ملکوں کی سائنس نے ترقی کی ہے آج ان کو دنیا کی ساری آسائشیں اور سہولتیں میسر ہیں وہ ہر طرح پرسکون اور مطمئن زندگی گذارتے ہیں ، ان کا معیارِ زندگی، ان کا رہن سہن ساری دنیا کے لئے باعث رشک ہے۔ اگر وہ بھی خدا کے بھروسے پر بیٹھے رہتے تو دانے دانے کے محتاج رہتے، چیتھڑے لپیٹے رہتے، خدا سے دعائیں کرتے رہتے اور خدا ان کو سسک سسک کر مرتے ہوئے دیکھتا رہتا اور ان کو اس سے چھٹکارے کی بات بھی نہیں سوچتا جیسا کہ عام طور سے مذہب کے نام لیوا ملکوں کے باشندوں کا حال ہے۔ ان حالات و اسباب کی بنا پر اگر کوئی خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے تو کیوں قابلِ ملامت ہے اور اس کا کیا قصور ہے؟ حضرت حکیم الاسلامؒنے اپنی کتاب میں دو طرح کے جوابات دئیے ہیں ایک تو الزامی جواب ہے دوسرا اصولی اور تحقیقی، الزامی جواب میں آپ نے انہیں کے انداز پر بات پلٹ کر مسکت جواب دیا ہے بذاتِ خود یہ جواب بھی خاموش کرنے کے لئے کافی ہے۔ آپؒ نے تحریر کیا کہ اگر ایک طرف آفات و