حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
خواب و خیال میں بھی نہ تھی، انھوں نے بڑے بحرانی موقعوں پر اس ادارہ کی حفاظت اور رہنمائی کی، انھوں نے اپنا نام اور زندگی اس ادارہ کے نام اور اس کی زندگی سے وابستہ کر دی تھی کہ ان میں سے ایک کا تصور دوسرے کے ساتھ آتا تھا۔ انسان کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف سننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور سخت سے سخت بات برداشت کرے، راقم نے حکیم الاسلامؒ کو اس معاملہ میں بہت عالی ظرف اور قوی الارادہ پایا، واقفیت رکھنے والے پورے حلقہ میں یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ حکیم الاسلامؒنہایت کریم النفس، بڑے شیریں اخلاق، نرم خو اور نرم گفتگو تھے، اقبال نے جو کہا ہے: ’’نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو‘‘یہ تعریف حکیم الاسلامؒپر صادق آتی ہے۔ حکیم الاسلامؒکا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کو ایک ہر دل عزیز ادارہ بنایا اور دارالعلوم کو بغیر کسی اختلاف کے عوام سے متعارف کرایا، اور ان کا اس سے تعلق پیدا کیا، تقسیم سے پہلے تحتی برّاعظم کے دورے کئے تقسیم کے بعد پاکستان بار بار گئے، جنوبی افریقہ کا دورہ کیا، انگلستان گئے اور آخر میں امریکہ گئے۔ حکیم الاسلامؒعوام کی اصلاح اور وعظ و ارشاد میں شیخ وقت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کے متبع تھے، حسن تقریر اور دعوتی و اصلاحی رنگ ان کا امتیاز تھا جس سے ہزاروں انسانوں کو فائدہ پہونچا، ہزاروں دلوں میں دین کے احترام کا جذبہ اور علماء کے متعلق حسن ظن پیدا ہوا، ایسا خوش بیان مقرر و واعظ وسیع المعلومات اور نورانی شکل کا عالم مشکل سے دیکھنے کو ملتا ہے، جس پر پہلی نظر پڑتے ہی قلب شہادت دیتا کہ یہ فطرتاً معصوم ہیں ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان میں ضرر پہونچانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، ایسے بے ضرر انسان کی اس خوبی یا کمزوری سے لوگ غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور عزل و نصب کا بھی وہ نشانہ بن جاتا ہے۔ حکیم الاسلامؒنہایت متین و باوقار شخص اور تواضع و اخلاق کا پیکر تھے، اسی کے ساتھ پرشکوہ اور باوقار بھی، حکیم الاسلامؒ ندوۃ العلماء کے بھی ایک مقتدر رکن تھے، اور اس کے کارکن اور ذمہ دار ان کا بزرگوں کی طرح احترام کرتے تھے، آخری بار آپ اسلامک اسٹیڈیز کانفرنس میں شرکت کے لئے ندوہ آئے اور تقریر فرمائی، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کارکن ہونے کی بناء پر بھی راقم کو حکیم الاسلامؒ سے نیاز حاصل ہوتا رہا، اور ہم نشینی کا شرف، بعض مرتبہ ان کو سخت تبصرہ اور تنقید سننی پڑی اور انھوں نے عالی ظرفی اور کریم النفسی کے ساتھ اس کو برداشت کیا، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک سخت جملہ انھوں نے سنا اور کچھ جواب نہیں دیا، ان کے بعض اہل تعلق سے معلوم ہوا کہ اس کے صدمہ سے ان کو بخار آگیا۔