کتاب الجنائز |
|
فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ:«إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ»۔(ابوداؤد:2790) حضرت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریمﷺسےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ: «نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا»۔(ابوداؤد:5142)(7)— میّت کے دَین کو اداء کرنا : میت کیلئے ایصالِ ثواب اور دعاء وغیرہ سے بھی زیادہ جلدی جس چیز کی ضرورت ہے وہ اُس کے قرضو کو اداء کرنے کا اہتمام کرنا ہے،عموماً اِس میں بڑی حد تک غفلت ،سستی اور کوتاہی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے میّت کی آخرت کا معاملہ داؤ پر لگتا ہے ، یاد رکھئے! کسی کے ساتھ اُس کے مَرنے کے بعد سب سے بڑا احسان اُس کے قرض کو اداء کرنا ہے ۔ اِمام اوزاعیفرماتے ہیں کی مجھے یہ خبر پہنچی ہے :جو شخص اپنے والدین کی زندگی میں اُن کے ساتھ بدسلوکی کرتا رہاپھر (مرنے کے بعد)اُن کے قرض کو اگر اُن کے ذمّہ کسی کا ہو تو اداء کردے اور اُن کیلئے