کتاب الجنائز |
|
حضرت ابوہریرہنبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : جنازہ کو جلدی لےجایا کرو، کیونکہ اگر وہ میت نیک ہوگی تو تم ایک اچھی چیزکو آگے رونہ کررہے ہو اور اگر وہ اس کے علاوہ(یعنی گناہ گار) ہوگی تو تم ایک بُرائی کو اپنی گردنوں سے رکھ رہے ہو(اور ظاہر ہے کہ دونوں صورتوں کا تقاضا یہی ہے کہ میّت کو جلدی دفنا دیا جائے)۔أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ۔(بخاری :1315)﴿دسواں حکم :غسل دینا﴾ میت کو غسل دینے میں مختلف اُمور قابلِ وضاحت ہیں ، اِس لئے ذیل میں اُنہیں بالترتیب مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا جارہا ہے:غسل دینے کی فضیلت: حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے میت کو غسل دیا اور اس کو کفن دیا اور اس کو خوشبو لگائی اور اس کو اُٹھایا اور اس کی نماز(جنازہ) پڑھی اور اس کے عیب کو ظاہر نہ کیاجو اس نے( غسل دیتے وقت) دیکھا ہو تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہو جاتا ہے جیسا کہ اس دن تھا جس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا، وَكَفَّنَهُ، وَحَنَّطَهُ، وَحَمَلَهُ، وَصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَمْ يُفْشِ عَلَيْهِ مَا رَأَى، خَرَجَ مِنْ خَطِيئَتِهِ، مِثْلَ يَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔(ابن ماجہ :1462) حضرت ابورافعفرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا: جس نے میت کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپایا(جو اس نے غسل دیتے وقت دیکھا ہو)اُس کے چالیس کبیرہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں