کتاب الجنائز |
جب حضرت جعفر کے انتقال کی خبر آئی تو نبی کریمﷺ نے اہل بیت سے فرمایا : جعفر کے اہل خانہ کے لئے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں ایک ایسا حادثہ پیش آیا ہے جو انہیں کھانا پکانے سے باز رکھتا ہے۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ»۔(ترمذی:998) اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ عمل نیکی اور حسنِ سلوک کی ایک بہترین شکل ہے،لہٰذا اس میں کوتاہی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے ۔اور بہتر یہ ہے کہ میت کے گھر والوں کو خود بٹھا کر اِصرار کر کرکے کھلائیں اِس لئے کہ غم اور ملال کی وجہ سے وہ کھانہ سکیں گے جس سے اُنہیں ضعف لاحق ہوسکتا ہے ،لہٰذا ساتھ بیٹھ کر کھلانا چاہیئے ۔(شامیہ:2/240)میت کے گھر والوں کی جانب سے عمومی دعوت: بکثرت یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جس گھر میں میّت ہوئی ہے اُس گھر کے افراد تدفین کے بعد ایک عمومی اور پُرتکلّف دعوت کا اہتمام کرتے ہیں جس میں تدفین میں شریک ہونے والےلوگ،گھر میں تعزیت کیلئے آنے والے مرد اور خواتین ،پڑوسی اور اہلِ محلہ اور دور و قریب کے تمام رشتہ دار شریک ہوتے ہیں ،اور اِس کیلئے دیگوں کا آرڈر دیا جاتا ہے،اور آنے والے تمام افراد بڑے اہتمام سے پرتکلّف کھانا کھاتے ہیں ۔ یاد رکھئے !! یہ عمل شریعت و سنّت کے خلاف تو ہے ہی ،عقل وقیاس کی رُو سے بھی کسی طرح یہ درست نہیں کیونکہ نبی کریمﷺکی تعلیمات میں تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ خود پڑوسیوں اور اہلِ محلّہ کو یہ فرض اور ذمّہ داری نبھانی چاہیئے تھی کہ وہ از خود کھانے کا انتظام کرکے میت کے گھر والوں کیلئے راحت و سکون کا ذریعہ بنتے ،لیکن اِس کے بالکل برخلاف یہ دیکھنے میں آتا ہےکہ خود اڑوس پڑوس کے اور محلہ کے افراد اپنے