کتاب الجنائز |
|
جیساکہ آپ ﷺنے ابو طالب اور یہودی کو ” قُلْ“ کہا تھا ۔ (مرعاۃ : 5/308)تلقین کتنی مرتبہ ہونی چاہیئے : جب وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے تو بس کافی ہے،بار بار تلقین نہیں کرنی چاہئے ۔ ہاں! اگروہ کوئی بات کر لے تو پھر سے تلقین کرنی چاہئے ، کیونکہ آخری کلام ” لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ “ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ بالکل آخر میں زبان سے کلمہ جاری ہو بلکہ زبان سے جاری ہونے والا آخری کلمہ ” لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ “ ہونا چاہیئے اگرچہ اُس کے بعد کتنا ہی وقت کیوں نہ گزر جائے۔(مجمع الانہر : 1/179)تلقین کس چیز کی ہو نی چاہیئے: تلقین صر ف توحید کی گواہی دینے کی یا شہادتین یعنی توحید و رسالت کی گواہی دینے کی کرنی چاہیئے ، اِس بارے میں دو قول ہیں : (1)— پہلا قول یہ ہے کہ شہادتین یعنی مکمل کلمہ کی تلقین کرنی چاہیئے ۔ (2)— دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ” لَا اِلٰہَ الّا اللہ “ کی تلقین کافی ہے ۔ اور یہی قول راجح ہے ۔ البتہ اگر کافر ہو تو اُس کو دونوں شہادتوں کی تلقین کرنا ضروری ہے ۔ (رد المحتار : 2/190)﴿چوتھا حکم :سورۂ یٓس اور سورۂ رعد کی تلاوت کرنا ﴾ یعنی میت کے قریب سورہ یٓس شریف پڑھنی چاہئے ،اس لئے کہ حدیث کے مطابق اس سے روح کے نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ (مرقاۃ : 3/1169)بعض حضرات نے سورۂ رعد پڑھنے کا بھی ذکر کیاہے ، کیونکہ اس سے بھی روح کے نکلنے میں آسانی ہوتی ہے ۔(شامیہ:2/191) (الفقہ الاسلامی : 2/1480)