کتاب الجنائز |
|
میرا پروردگار بڑا رحیم و کریم ہے ،مغفرت و بخشش کرنے والا ہے ، مجھے اپنے پردگار سے بھر پور اُمید ہے کہ وہ مجھے معاف کردے گا اور بخشش کی چادر میں ڈھانپ لے گا۔ حدیثِ قدسی میں ہے ، اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسی وہ مجھ سے اُمید رکھتا ہے۔أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي۔(بخاری:7405) حضرت جابرفرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکی وفات سے تین دن پہلےسنا،آپ اِرشاد فرمارہے تھے:تم میں سے ہر گز کسی شخص کو موت نہیں آنی چاہیئے مگر اِسی حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اچھا ہی گمان رکھتا ہو۔«لَا يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ»۔(مسلم:2877)آٹھواں عمل: حقوقِ واجبہ کی وصیت: اِنسان کی زندگی اور موت کا کچھ پتہ نہیں ،اِس لئے کوئی چیز اگر وصیت سے متعلق ہو تو اُس کو لکھ لینا چاہیئے ، تاکہ اچانک سے موت آجانے کی صورت میں کوئی لین دین کے معاملات یا نماز روزے کے فدیہ وغیرہ کی وصیت کرنا ترک ہی نہ ہوجائے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرسے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: کسی ایسے مسلمان کے ليے جس کے پاس وصیت کے لائق کوئی چیزہو ، جائز نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی وصیت تحریر کئے بغیر بسر کر۔مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ۔(بخاری:2738) ٭………٭………٭………٭