کتاب الجنائز |
|
وَسَلَّمَ:إِنْ شِئْتُمْ أَنْبَأْتُكُمْ بِأَوَّلِ مَا يَقُولُ اللهُ لِلْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَبِأَوَّلِ مَا يَقُولُونَ؟قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:يَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ:هَلْ أَحْبَبْتُمْ لِقَائِي؟ قَالَ:فَيَقُولُونَ: نَعَمْ يَا رَبَّنَا، فَيَقُولُ: لِمَ؟ فَيَقُولُونَ:رَجَوْنَا عَفْوَكَ وَرَحْمَتَكَ؛ فَيَقُولُ: إِنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمْ رَحْمَتِي۔(شعب الایمان:1017)﴿ساتواں حکم: زندگی میں اپنی بیٹھک اچھے لوگوں کے ساتھ رکھنا ﴾ اِنسان کو اپنی زندگی میں اچھے لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہیئے اور اُنہی کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا چاہیئے کیونکہ اِس کا اثر اور فائدہ زندگی میں بھی حاصل ہوتا ہے کہ نیکی اور تقویٰ کا مزاج بنتا ہے ،اعمالِ صالحہ کی توفیق ملتی ہے اور گناہوں والی زندگی سے بچنا نصیب ہوتا ہے ،موت کے وقت بھی اس کا بھر پور فائدہ ہوتا ہے،کہ اللہ تعالیٰ صلحاء کی صحبت کی برکت سے حسنِ خاتمہ کی عظیم دولت عطاء فرماتے ہیں اور آخرت میں بھی اُن کے ساتھ حشر ہوتا ہے ۔ حضرت مُجاہدفرماتے ہیں :کسی بھی شخص کا جب انتقال ہوتا ہے تو اُس کے سامنے اُس کے اہلِ مجلس(جن کے ساتھ وہ دنیا میں اُٹھا بیٹھا کرتا تھا اُن کو)پیش کیا جاتا ہے،اگر وہ اہلِ ذکر(اللہ کو یاد کرنے والے)ہوتے ہیں تو اہلِ ذکر میں سے لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے اور اگر وہ اہلِ لہو(فضولیات اور لہو و لعب میں پڑے رہنے والوں) میں سے ہوتے ہیں تو اُنہیں پیش کیا جاتا ہے۔«مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ إِلَّا عُرِضَ عَلَيْهِ أَهْلُ مَجْلِسِهِ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الذِّكْرِ، فَمِنْ أَهْلِ الذِّكْرِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ اللهْوِ فَمِنْ أَهْلِ اللهْوِ»۔(حلیۃ الأولیاء:3/283)