کتاب الجنائز |
|
اور کہتے ہیں کہ یہ (قیامت کا)وعدہ کب پورا ہوگا؟ (مسلمانو! )بتاؤ اگر تم سچے ہو، (در اصل)یہ لوگ بس ایک چنگھاڑ کا انتظار کررہے ہیں جو اُن کی حجت بازی کے عین درمیان اُنہیں آپکڑے گی، پھر نہ یہ کوئی وصیت کرسکیں گےاور نہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاسکیں گے۔(آسان ترجمہ قرآن کریم) حضرت عبد اللہ بن عمرسے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: کسی ایسے مسلمان کے ليے جس کے پاس وصیت کے لائق کوئی چیزہو ، جائز نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی وصیت تحریر کئے بغیر بسر کر۔مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ۔(بخاری:2738) حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺسے حدیث سنی ہے تب سے میں نے کوئی ایک رات بھی ایسی بسر نہیں کی کہ جس میں میری تحریر شدہ وصیت میرے پاس موجود نہ ہو۔(مسلم:1627)﴿تیسرا حکم :موت کو یاد کرتے رہنا ﴾ حضرت عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نبی کریمﷺکی خدمت میں آیا، اُس نے سوال کیا : یا اے اللہ کے نبی! لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند اوردانا کون ہے؟ آپﷺنے اِرشاد فرمایا:جو لوگوں میں سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا اور موت آنے سے پہلے سب سے زیادہ موت کی تیاری کرنے والا ہو، یہی لوگ(ہی در اصل)عقلمند ہیں جو دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی پر بازی لے گئے۔فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ:«أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ، وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ، أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ، ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ»۔(طبرانی اوسط:6488)