مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
تھے، فرمایا اگر اپنے آدمی اور بے تکلف لوگ ہوں تو ان کو جو چاہو دال روٹی کھلادو، لیکن ہر مہمان کے سامنے تو دال روٹی نہیں رکھ سکتے ، مہمان کااکرام اس کی شان کے مطابق ہونا چاہئے، کچھ اہتمام بھی کرنا چاہئے، ایک صاحب نے عرض کیا کہ ناوقت اور بغیر اطلاع اچانک آنے کی وجہ سے یہ پریشانی ہورہی ہے اگر یہ اصول مقرر کردیا جائے کہ جو آئے پہلے سے اطلاع کردیا کرے، بغیر اطلاع نہ آئے تاکہ پہلے سے انتظام کرلیا جائے، اور عین وقت پر پریشانی نہ ہو، فرمایا ہر جگہ یہ نہیں چل پاتا علاقہ کی اور حالات کی رعایت کرنا پڑتی ہے، اس علاقہ میں یہاں یہ بات نہیں چل سکتی، ورنہ مزاج تو میرا بھی یہی ہے، اصول کی پابندی اور خانقاہی مزاج کا میں بھی ہوں ، اگر تبلیغ اور مدرسہ کی لائن اختیار نہ کی ہوتی صرف خانقاہی کام ہوتا تو خانقاہ بناکر اور خانقاہی بن کر دکھادیتا لیکن مجھ سے ہر قسم کے لوگوں کاسابقہ پڑتا ہے، طرح طرح کے لوگوں سے میرے روابط ہیں ، تبلیغ کے کام سے بھی میں جڑا ہوا ہوں ، مدرسہ کے کام اور دوسری ذمہ داریاں بھی ہیں ، ہرطرح کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے یہاں اصول وصول کہاں چل سکتے ہیں ، رعایت کرنا پڑتی ہے، اس پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت تھانویؒکے یہاں اصول مقرر تھے، ان کے یہاں ایسا ہوتا تھا، ان کی خانقاہ کا یہ اصول تھا، ان کے گھر میں یوں ہوتا تھا، اچھے اچھے لوگ اس میں مبتلا ہیں کہ حضرت تھانویؒ کے یہاں ایسا ہوتا تھا لہٰذا ہم بھی ایسا ہی کریں گے، ارے بزرگوں کی شانیں ہوتی ہیں ، ان کی ایک شان تھی، ان کے سامنے ایسے حالات تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ایسے اصول مقرر کئے تھے، کیا تمہارے سامنے بھی ایسے حالات ہیں اور تم بھی ایسے ہو جیسے حضرت تھانویؒ تھے، حضرت تھانویؒ نے کیا کیا تھا اور تم کیا کرتے ہو؟ کیا تم بھی حضرت تھانویؒ ہو؟ اگر ایسا کرتے ہو تو پہلے حضرت تھانویؒ تو بنو، بن کر دکھلائو پھر ایسا کرو، پہلے اپنے اندر کچھ ہونا تو چاہئے تب ان کی نقل اتارنا، پہلے سے نقل اتارنا شروع کردی وہ بھی صرف اس قسم کے امور میں ؟ کہیں سن لیا کہ حضرت تھانویؒ ایسا کرتے تھے، ان کے یہاں ایسے اصول