مجالس صدیق جلد 1 |
فادات ۔ |
|
کتابوں کا لوگ نام تک نہیں جانتے اور بہت سی کتابوں کی واقعی اب ضرورت بھی نہیں ۔ پانی پت میں جب میں پڑھتا تھا اس وقت منطق وفلسفہ میں مہارت تو تھی نہیں میرے ساتھی مولانا اسلام الحق صاحب جو بہار کے رہنے والے تھے وہ بڑے تیز تھے، اوراس وقت منطق وفلسفہ کا امتحان لینے کے لئے جو ممتحن آتے تھے بڑا سخت امتحان لیتے تھے، مولانا بشیر احمد صاحب ، مولانا نصیر احمد صاحب، مولانا ابوالوفاء صاحب جیسے لوگ امتحان لیا کرتے تھے، چنانچہ مولانا ابوالوفاء صاحب امتحان لینے کے لئے تشریف لائے ان کا معمول تھا کہ طالب علم سے کہتے کہ جہاں سے جی چاہے کتاب کھولو، طالب علم کو اختیار دے دیتے تھے، لیکن پھر پوچھتے تھے اچھی طرح ،اتفاق سے امتحان کے وقت میں مولانا اسلام الحق صاحب کے بغل میں بیٹھ گیا جب ان سے کتاب کھولنے کو کہا گیا تو انہوں نے یہی مشکل مقام کھول کردے دیا (جو آج تم لوگوں کو پڑھنا ہے)مولانا اسلام الحق صاحب کی توپوری کتاب پختہ یاد تھی میرے لئے مشکل تھی ان کو معلوم تھا کہ یہ مشکل مقام ہے اور اس کو یاد نہیں ہے، مولانا ابوالوفاء صاحب نے فرمایا بھی کہ یہی مقام ملا تھا کھولنے کے لئے، بہرحال امتحان ہوا اس کے بعد میرا نمبر تھا میں ڈر رہا تھا لیکن اللہ کا کرنا جب میرا نمبر آیا تو مولانانے ایک ورق الٹ دیا وہ آسان تھا اور مجھے خوب یاد تھا، اس لئے خوب بتلایا اور اچھے نمبروں سے پاس ہوا۔ اس کے بعد قدوری کافیہ کا امتحان ہونا تھا مولوی اسلام الحق صاحب ذہین آدمی تھے، انہوں نے کافیہ کا زبانی امتحان دیا جب میرا نمبر آیا تو میں نے پہلے سے کتاب کھول کر دے دی کیونکہ ان کا معمول ہی یہی تھا کہ طالب علم سے کہتے تھے کہ جہاں سے جی چاہے کھولو، لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے ساتھی نے تو کافیہ قدوری کا امتحان زبانی دیا ہے تم کتاب کھول کردے رہے ہو میں نے عرض کیا کہ میرا بھی زبانی لے لیجئے، ان دونوں کتابوں میں میں نے خوب محنت کی تھی اس کی عبارت تک مجھے زبانی یاد تھی، چنانچہ میں نے کتاب بند کردی اور زبانی امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہوا، امتحان کے بعد مولانا ابوالوفاء صاحب نے فرمایا کہ اگر میں قسم کھالوں کہ دیوبند میں بھی ایسے طلبہ نہیں ہوں گے تو حانث نہ ہوں گا۔