حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ کی یہ بات اس حد تک درست ہے کہ حکومت الٰہیہ کے قیام کے لئے دعوت و ارشاد کے ذریعہ ماحول سازگار کرنا چاہئے۔ لیکن اس بات پر اس قدر زور دینا درست نہیں ہے کہ دعوت ارشاد کا فریضہ قیام خلافت کے فریضہ کی شرط محسوس ہونے لگے۔ خلافت کو قائم کرنے کی کوشش کرنا اور دعوت و تبلیغ کرنا دونوں الگ الگ فرائض ہیں جس طرح کسی بے نمازی کو رمضان کے روزے رکھنے سے منع نہیں کیا جاسکتا کہ تو نماز پڑھتا نہیں تھا اب روزہ کیوں رکھے کیوں کہ نماز اور روزہ دونوں علیحدہ علیحدہ فرائض ہیں ۔ کسی کی فرضیت کو کسی کی فرضیت کے ساتھ مشروط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس میں تدریج اور فوقیت کی شرط ہے بلکہ خلافت کے قیام کی جدو جہد اور تبلیغ دین کی جدو جہد دونوں ہر وقت ہر مسلمان پر واجب ہے۔ حکیم الاسلامؒ نے کتاب ہٰذا کے شروع میں لکھاہے کہ یہ دین، دعوتِ دین اور اہل دین سب عالمی ہیں ۔ اس کا کوئی خاص وطن نہیں بلکہ پوری دنیا اس کاوطن ہے۔ اس حقیقت کے واضح ہونے کے بعد قیام حکومت الٰہیہ کی اہمیت و ضرورت میں کمی کرنا یا اسے مشروط کرنا بالکل خلاف عقل بات ہے۔ عقل خود کہتی ہے کہ ایسا کیوں سیاسی نظام بھی ضرور ہونا چاہئے جو عالمی ہو۔ خلافت علی منہاج النبوۃ اسی سیاسی نظام کا نام ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت حکومت الٰہیہ کے قیام کی ضرورت دعوت دین سے زیادہ ہے بایں وجہ کہ ہم جس دین کی دعوت دیتے ہیں اس دین کے احکام پر مکمل طور پر ہم خود عمل نہ کرپانے کے لئے مجبور ہیں ۔ غیر اسلامی حکومتوں میں اسلام کا نظام زکوٰۃ، نظام دیوانی، نظام فوج، حدود، انسداد، ظلم و جرائم، نکاح و طلاق جیسے اجتماعی معاملات کے احکام کی تعمیل خلافت کے بغیر ناممکن ہے۔ پھر دعوت دین کے موثر ہونے کے لئے ماحول کی سازگاری بھی ضروری ہے۔ ایسا ماحول جس میں اسلام اپنی شکل و صورت کے ساتھ ہو، پھر قبول اسلام کی راہیں بھی مسدود نہ ہوں ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب اسلام بحیثیت نظام کے غالب ہو۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو مسلمان ارتداد کا شکار ہو رہے ہیں ہندو دھرم، بہائی، قادیانیت وغیرہ کو قبول کر رہے ہیں ان کے لئے کی جانے والی کوششیں کارگر نہیں ہو پارہی ہیں ۔ لہٰذا دعوت دین کے ساتھ ساتھ قیام حکومت الٰہیہ کے لئے بھی ہماری جدو جہد ہونی چاہئے۔ یہ وہ اہم فریضہ ہے جس کے لئے انسانوں کو پیدا کیا گیا انہیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔ ساری دنیا اللہ پاک نے ان کی خدمت میں لگادی۔ اتنے اعزازات اور اتنی نوازشیں اسی لئے تو ہیں کہ اللہ نے انسانوں کو اور امت محمدیہ کو بالخصوص اس دنیا پر احکام الٰہی نافذ کرنے کی ذمے داری دی۔ انی جاعلک فی الارض خلیفۃ یہ اتنا مہتم بالشان اور اہم فریضہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسول اکرمؐ کی نعش مبارک کو دفن کرنے سے پہلے اپنے خلیفہ کا انتخاب کیا۔