حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کہ پایا ہم نے استغناء میں اندازِ مسلمانی مولانا محمدطیب صاحبؒ رقم طراز ہیں : ’’استغناء کے بغیر تبلیغ کا وقار اور احترام قائم نہیں ۔ ہو سکتا لالچی اور خود غرض انسان کبھی میدانِ تبلیغ کا مرد نہیں بن سکتا اور نہ کبھی بے باکانہ تبلیغ کر سکتا ہے۔ مبلغ کے قلب میں جب اپنے مستفیدوں سے طمع پیدا ہوگئی تو یقینا وہ ان کا محتاج ہوگیا اور محتاج انسان کمزور ہوتا ہے اور جب معلم کمزور و ذلیل ہو اور متعلم قوی و حاوی ہو تو معلم و مبلغ میں تبلیغ حق کی حقیقی جرأت پیدا ہی نہیں ہوسکتی اور نہ وہ مخاطبوں پر اپنا اثر قائم کر سکتا ہے۔ از بگذار و بادشاہی کن چنانچہ حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب علیہم الصلوٰۃ والسلام کے تبلیغی مواعظ کے سلسلہ میں قرآن نے ایک ہی قول نقل کیا ہے: وما اسئلکم علیہ من اجرٍ ان اجری الا علی رب العالمین فاتقواللّٰہ واطیعون (۱۰۴) استغناء کا ایک اور مقصد بتاتے ہوئے آپ لکھتے ہیں : ’’مبلغ کو تبلیغ کے ثمرات سے بھی مستغنی رہنا چاہئے۔ جب مبلغ اپنی مساعی کے معنوی ثمرات کا خطرہ بھی دل میں نہ لائے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اسی مبلغ کو کار تبلیغ کے کسی مادی ثمرہ کی فکر میں غلطاں و پیچاں چھوڑ دیا جاتا۔‘‘ (۲۶) غناء و استغناء کے قومی ثمرات اور عدم استغناء کی مذمت کرتے ہوئے آپ رقم طراز ہیں : ’’جو قومیں کسی سے عزت و جاہ کی بھیک مانگ کر زندہ رہنا چاہتی ہیں وہ کبھی عزت سے ہمکنار نہیں ہوسکتیں اور جو غنا و استغناء اور غیرت مندی کے ساتھ اپنی اور اپنے ہی مزاج کی بنیادوں پر اٹھتی ہیں وہ کبھی ذلت کا منہ نہیں دیکھ سکتیں ۔ حیرت ا س پر ہے کہ غناء و استغناء کے خزانوں کے ہوتے ہوئے بھی مسلم قوم دریوزہ گری کو اپنا نشان بلکہ فخر بنائے ہوئے ہیں اور اقوام کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے۔ (۲۷) غلامی کی زندگی گذار ہی امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی خامی یہ بھی ہے کہ عزت و دولت کی بھیک اپنے ظالم حکمرانوں سے مانگنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ ریزرویشن کی بھیک، ریکوگنائزیشن کی بھیک، روٹی کپڑا، گھر کی بھیک، باطل اقتدار کے دم چھلہ بننے کی بھیک، دشمنان اسلام کی خوشنودی کی بھیک۔ امت کی یہ صورت حال اسی حقیقت کی غماز ہے کہ جسے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ: سو غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر