حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
رہیں سچ یہ ہے کہ بیگانگی کے اس دور میں نگاہیں ان کو ڈھونڈتی ہیں مگر دور دور تک کہیں نظر نہیں آتیں ۔ طلبہ کے ساتھ ہمدردانہ برتائو اور اپنے ملنے جلنے اور جاننے پہچاننے والوں کے ساتھ ان کا سلوک آج کے دور میں ایک خواب و خیال نظر آتا ہے۔ ۱۹۷۴ء کی بات ہے۔ راقم الحروف نے اپنے ادارہ جامعہ ضیاء العلوم پونچھ میں حضرت حکیم الاسلامؒ کو تشریف آوری کی دعوت دی۔ ادارہ کا ابتدائی دور تھا۔ علاقہ انتہائی پس ماندہ، جہالت عروج پر اور شرک، بدعات کا شباب۔ خیال یہ تھا کہ ایسی بے سرو سامانی اور ایسے نامساعد احوال و ظروف میں تشریف آوری کی دعوت شرف قبولیت سے باریاب نہ ہوگی۔ مگر حکیم الاسلامؒ کی شفقتیں اور محبتیں کہ بلاتامل دعوت منظور فرمالی گئی۔ مگر ادھر حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے شایانِ شان پذیرائی نہ ہو سکنے کا اندیشہ دامن گیر مستزاد برآن جموں سے پونچھ تک راستے کی ناہمواریاں اور کٹھنائیاں ، مسافت طویل، پُر صعوبت اور پُرپیچ ، کڑکتی ہوئی سردی کا موسم، دھول اور دھندسے آسمان ڈھکا ہوا، گرد و غبار کی دبیز چادر، فضا کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے اور کار کا سفر، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کو اس سفر میں کس قدر دشواریوں کا سامنا ہوا ہوگا مگر بایں ہمہ پوری بشاشت کے ساتھ پونچھ تک کی یہ طویل مسافت طے فرمائی اور ایک جملہ بھی زبان مبارک سے دریافت کرنے کے باوجود۔ شکوہ یاشکایت کا نہیں آیا۔ پونچھ پہنچنے پر عوام الناس نے جس ایمانی جوش و جذبہ کے ساتھ آپ کا استقبال کیا وہ پونچھ کی تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ ہے۔ بعدِ عشاء آپ کا خطاب شروع ہوا۔ عالم یہ تھا کہ جیسے ساون کی رم جھم بارش ہورہی ہو اور خشک کھیتیاں لہلہا اٹھی ہوں ۔ رات گئے تک نہایت اطمینان کے ساتھ خطاب کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران نہ پہلو بدلا، نہ لب و لہجہ میں کوئی تبدیلی آئی۔ مجمع کیا تھا۔ ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، مختلف المسالک، مختلف الخیال، مسلم، غیر مسلم سبھی ہمہ تن گوش برآواز، نہ نیند کا احساس، نہ تکا ن، گویا آب حیات کا بند ٹوٹ گیا اور ہر شخص بقدر ظرف جام کے جام اتار رہا ہے۔ اس سفر میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے ایک منظوم سفرنامہ بھی تحریر فرمایا جس کو جامعہ ضیاء العلوم نے ’’سفر نامہ پونچھ‘‘ کے نام سے باضابطہ کتابچہ کی صورت میں شائع کرچکا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ پر جو کچھ کہنا اور لکھنا چاہئے تھا ہمارے قابل قدر قلم کار اور فاضل مقالہ نگار کافی حد تک کہہ بھی چکے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ حق تعالیٰ شانہٗ حضرت حکیم الاسلامؒ کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی خدمات و کارناموں کو اسلام کی اشاعت اور مسلکِ دیوبند کے استحکام کا ذریعہ بنائے۔ آمین یارب العالمین