حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ایک دعوت میں مولانا فخر الحسن صاحب مرحوم باربار رائتہ اٹھا کر پیش کرتے اور کہتے کہ رائتہ فرمایا کہ جی ہاں رأیت غالباً اس وقت رائتہ مرغوب نہ تھا۔ مجھ پر شفقت کی خاص نظر تھی اور میری گستاخیوں پر مکدر نہ ہوتے کبھی حاضر ہوتا تو فرماتے ’’تشریف لایئے مولانا‘‘ خود ہی ایک بار فرمایا کہ بھائی تمہیں مولانا کہتے ہوئے تکلف ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ جیسے میں سالم کہتا ہوں ، اسی طرح تمہیں بھی انظر کہوں ، میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو میری سعادت ہوگی اور آپ کا غایت تعلق جو میرے لئے وسیلۂ نجات ہوگا۔ انشاء اللہ۔ میری گستاخیاں بعض اوقات ان کے تکدر کو فرحت و انبساط میں بدل دیتی تھیں ، مدراس کے ایک سفر میں نمازِ فجر کے بعد کسی بات پر ان کی طبیعت قدرے مکدر ہوگئی، ناشتہ کے دستر خوان پر تشریف لانے کے بجائے اپنے کمرہ میں قلم کاغذ لے کر بیٹھ گئے میں معمولاً تفریح سے لوٹا تو ان کے کمرے کے باہر یہ منظر دیکھا کہ مدراس کے بہت سے رئیس التجار سہمے ہوئے کھڑے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ حضرت ناشتہ کے لئے تشریف نہیں لا رہے ہیں اور تحریری شغل میں منہمک ہیں ، میں سیدھا کمرے میں حاضر ہوا تو لکھنے میں مستغرق تھے، میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا، لگتا ہے آج آپ نے بھوک ہڑتال کر دی، جب نظر اٹھاتے تو چشمہ کے عقب میں داہنا حاجب تن جاتا۔ نظر میری طرف اٹھا کر فرمایا کہ تمہیں ہر وقت مذاق کی سوجھتی ہے، لہجہ تکلف آمیز تھا، میں نے جرأت پائی تو عرض کیا کہ ویسے تو کوئی نقصان نہیں البتہ دوسروں کے لئے مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، فرمایا کیوں ؟ عرض کیا آپ نے ہاتھ کھینچ لیا، یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ بھائی پھر بھی نہیں چھوڑتے، دستر خوان پر تشریف فرما ہوئے تو وہی بذلہ سنجی اور نکتہ طرازی پھر یہ نشست دوپہر تک چلتی رہی۔ دارالعلوم سے آپکو اس درجہ تعلق تھا کہ میری موجودگی میں ایک صاحب کا تجوید میں تقرر ہوا، کسی نے کان میں چپکے سے کہا کہ امیدوار کا تعلق فلاں گروپ سے ہے، جھنجھلا کر فرمایا، اس سے کیا ہوتا ہے کہ فلاں سے ہے فلاں سے نہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ دارالعلوم کیلئے بھی مفید ہیں یا نہیں ۔ ……v……