حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تقریر اپنے اندر ایسے علمی جواہر پارے رکھتی تھی جہاں تک عام اہلِ علم کی رسائی نہیں تھی۔ کچھ قدرتی طور پر آپ کا ذہن گہرائیوں میں ڈوب کر ایسے نادر و نایاب اور بیش قیمت گوہر نکال لاتا تھا جو دوسروں کی دسترس سے باہر تھا اس لئے اگر ان کی تقریر کو قلم بند کرکے شائع کردیا جائے تو کم ہی لوگ سمجھ پائیں گے کہ یہ سنبھل سنبھل کر لکھی ہوئی کتاب ہے یا کوئی برجستہ تقریر، مثال میں حضرت حکیم الاسلامؒ کی یہی کتاب ’’آفتابِ نبوت‘‘ پیش کی جاسکتی ہے۔ یہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی سیرت نبوی پر ایک عالمانہ تقریر ہے جو قلم بند کرکے شائع کردی گئی ہے اور خود حضرت حکیم الاسلامؒ کے قلم سے ہے، حسب دستور ابتداء میں ایک لمبی تمہید، خوبصورت الفاظ کے برمحل استعمال اور اس کی معنویت کے نئے نئے پہلوتراشنا، استعارات، و مجازات کا ایک طویل سلسلہ جو ابتداء کتاب سے آخر تک یکساں پایا جاتا ہے، کتاب پڑھتے جائیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اہل علم مرصع عبارت میں شاندار تقریر سنا رہا ہے، اندازِ تحریر، اندازِ بیان اور لب و لہجہ سے ہم آہنگ ہے، صاف پتہ چلتا ہے لکھا نہیں جارہا بلکہ بولا جارہا ہے، آفتابِ نبوت ذاتِ نبوی کا استعارہ کیا گیا تو آخر کتاب تک اس استعارہ کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور سیرت کے ہر ہر پہلو کو اسی آفتاب، اسی کے نور اور اس سے متعلق اشیاء و کیفیات و خصوصیات کے استعاروں میں گفتگو کی گئی ہے، اگر اس کو تصنیف مان لیا جائے تو کہا جائے گا کہ سیرت کے موضوع پر اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب ہے جس میں تقریرو تحریر دونوں کی چاشنی موجود ہے۔ اس میں دو لذتیں ہیں ایک سے دل محظوظ ہو رہا ہے اور دوسری سے قوت سامعہ لطف اندوز ہو رہی ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کا شمار ان علماء میں تھا جن کا اپنا ایک علمی مقام تھا اور وہ اپنے دل میں اصلاح و تبلیغ کا پاکیزہ جذبہ رکھتے تھے۔ ان کی تقریر کا مقصد عوام و خواص کو اسلامی تعلیمات و روایات کی اہمیت و غفلت سے آگاہ کرنا، سیرتِ نبوی کے ان گوشوں کو روشنی میں لانا جو دلوں میں سرکارِ دو عالم B کی قدرو منزلت، علو شان، علوئے مرتبت کو جاگزیں کردیں وہ اپنے موضوع سے ایک لمحہ کے لئے بھی صرفِ نظر نہیں کرتے تھے، ذخیروں سے واقفیت کی بنیاد پر اپنی طویل ترین تقریروں میں بھی اسے اپنا موضوعِ سخن بنا لیا، اس سے سرمو انحراف نہیں کرتے تھے۔ جب تقریر ختم ہوتی تو ہر سننے والا محسوس کرتا کہ اپنے موضوع پر ایک سیر حاصل اور مفید بحث سے استفادہ کا موقع حاصل ہوا، اگر کوئی شخص تقریر کا خلاصہ بتانا چاہے تو دوسرے کو آسانی سے بتا سکتا تھا کیوں کہ وہ ایک مربوط بیان اور علمی شاہکار ہوتا تھا میرے اس بیان کی وہ تمام لوگ شہادت دے سکتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی حضرت حکیم الاسلامؒ کی تقریر سنی ہے اور ان کے وعظ میں شریک ہوئے ہیں ۔