کتاب الجنائز |
|
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ»۔ (مسلم:970) گچ کرنا دراصل چونے وغیرہ سے عمارت کے پختہ کرنے کو کہا جاتا ہے ،موجودہ زمانے میں قبروں کو ماربل اور سنگِ مَرمَر وغیرہ کے ذریعہ پختہ اور مضبوط بنانے کا رَواج ہےجو احادیثِ رسول اللہﷺکی رُو سے بالکل ناجائز ہے۔پھر ستم بالائے ستم یہ کیا جاتا ہے کہ اُس پر ایک اونچی اور مضبوط عمارت بھی قائم کی جاتی ہے،قبّہ بھی بنادیا جاتا ہےاور باقاعدہ ایک مَزار کی شکل دیدی جاتی ہے ،یہ سب جہالت اور دین سے دوری کا نتیجہ ہےجس میں عَوام کالأنعام مبتلاء ہیں ۔ پختہ قبر بنانے کی مُمانعت ایک اتفاقی مسئلہ ہے : بعض لوگ پختہ قبر بنانے کو اختلافی مسئلہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں ،اُن کی یہ رائے محض غلط ہے، یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ،بلکہ حدیث کا صریح اور واضح مسئلہ ہے ، اِس میں بھلا اختلاف کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ، ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و محدّثین اِس پر متفق ہیں ، ذیل میں اِس کے کچھ حوالہ جات ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں : ٭— اِمام محمّدفرماتے ہیں : ہم اس چیز کو درست نہیں سمجھتے کہ قبر پر اس کی اپنی مٹی سے زیادہ مٹی ڈالی جائے اور ہم اسے بھی مکروہ (بمعنی حرام) سمجھتے ہیںکہ قبر کو چونا گچ کیا جائے یا مٹی سے لیپا جائے یا اس کے قریب مسجد بنائی جائے یا نشان بنایا جائے یا اس پر لکھا جائے اسی طرح ہمارے نزدیک پختہ اینٹ سے قبر بنانا یا اسے قبر میں استعمال کرنا مکروہ ہے البتہ قبر پر پانی لگانے میںکوئی حرج گناہ نہیں اور امام ابو حنیفہ کا بھی یہ ہی قول ہے ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَلَا نَرَى أَنْ يُزَادَ عَلَى مَا خَرَجَ مِنْهُ، وَنَكْرَهُ أَنْ يُجَصَّصَ أَوْ يُطَيَّنَ، أَوْ