کتاب الجنائز |
|
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا، فَقَالَ:«أَلاَ تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُعَذِّبُ بِدَمْعِ العَيْنِ، وَلاَ بِحُزْنِ القَلْبِ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا-وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ-أَوْ يَرْحَمُ۔(بخاری :1304) حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں (جب) رسول کریم ﷺ کی اولا میں سے کسی کا (یعنی حضرت زینب کا) انتقال ہوا تو عورتیں جمع ہوئی اور ان پر رونے لگیں (یہ دیکھ کر) حضرت عمر فاروق کھڑے ہوئے اور (اقرباء) کو رونے سے منع کیا اور (اجنبیوں کو ) مار مار کر بھگانے لگے۔ آنحضرتﷺنے ( جب یہ دیکھا) تو فرمایا : اے عمر! انہیں (اپنے حال پر) چھوڑ دو کیونکہ آنکھیں رو رہی ہیں اور دل مصیبت زدہ ہے نیز مرنے کا وقت قریب ہے۔مَاتَ مَيِّتٌ مِنْ آلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْتَمَعَ النِّسَاءُ يَبْكِينَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ يَنْهَاهُنَّ وَيَطْرُدُهُنَّ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهُنَّ يَا عُمَرُ فَإِنَّ الْعَيْنَ دَامِعَةٌ، وَالْقَلْبَ مُصَابٌ، وَالْعَهْدَ قَرِيبٌ»۔(نسائی:1859) حضرت انس فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے گھر گئے جو (آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کی دایہ کے شوہر تھے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم کو (گود میں) لے کر بوسہ لیا اور سونگھا (یعنی اپنا منہ اور ناک ان کے منہ پر اس طرح رکھی جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے) اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد ہم پھر ابوسیف کے یہاں گئے جب کہ حضرت ابراہیم حالت نزع میں تھے چنانچہ (ان کی حالت دیکھ کر) آنحضرت ﷺکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟آپ نے فرمایا : اے ابن عوف! (آنسو کا بہنا ) رحمت ہے۔ اس کے بعد پھر آپ ﷺ کی مبارک آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ نے فرمایا آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہماری زبانوں پر وہی الفاظ ہیں