کتاب الجنائز |
|
حرم سے باہر لائے ،تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو ۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی ۔ پھر خبیب نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا :اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں ( قتل سے ) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا ۔ اے اللہ ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے ، ( پھر یہ اشعار پڑھے ) ” جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے ۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے ، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو ،آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کر دیا ۔ حضرت خبیب سے ہی ہر اس مسلمان کے لئے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے ) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں ۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں حضرت عاصم بن ثابت (مہم کے امیر ) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے ) اور نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی ۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لئے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ (اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ) عاصمنے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار ( عقبہ بن ابی معیط ) کو قتل کیا تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے ۔بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ