کتاب الجنائز |
|
حضرت ابوہریرہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر ان لوگوں کا خیال نہ ہوتا جو میرے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہوسکنے کو ناپسند کرتے ہیں (اور اسباب کی کمی کی وجہ سے غزوہ میں شریک نہیں ہوسکتے) اور کوئی ایسی چیز میرے پاس نہیں ہے جس پر انہیں سوار کروں، تو میں (غزوات میں شرکت سے) کبھی پیچھے نہ رہتا، میں تمنا کرتا ہوں کہ میں راہ خدا میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں۔وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلاَ أَنَّ رِجَالًا يَكْرَهُونَ أَنْ يَتَخَلَّفُوا بَعْدِي،وَلاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ،مَا تَخَلَّفْتُ، لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ۔(بخاری:2797) ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺنےآیت﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾کی تفسیر میں اِرشاد فرمایا: شہیدوں کی رُوحیں سبز پرندوں کے جوف میں سواری کرتی ہیں، ان کی قرارگاہ وہ قندیلیں ہیں جو عرشِ الٰہی سے آویزاں ہیں، وہ جنت میں جہاں چاہیں سیر و تفریح کرتی ہیں، پھر لوٹ کر انہی قندیلوں میں قرار پکڑتی ہیں، ایک بار ان کے پروردگار نے ان سے بالمشافہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم کسی چیز کی خواہش رکھتے ہو؟ عرض کیا: ساری جنت ہمارے لئے مباح کردی گئی ہے، ہم جہاں چاہیں آئیں جائیں، اس کے بعد اب کیا خواہش باقی رہ سکتی ہے؟ حق تعالیٰ نے تین بار اصرار فرمایا (کہ اپنی کوئی چاہت تو ضرور بیان کرو)، جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی نہ کوئی خواہش عرض کرنی ہی پڑے گی تو عرض کیا: اے پروردگار! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری رُوحیں ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹادی جائیں، تاکہ ہم تیرے راستے میں ایک بار پھر جامِ شہادت نوش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ