کتاب الجنائز |
|
صمّہ سے ہوا ، درید مارا گیا اور اس کے ساتھیوں کو اللہ نے شکست دی ۔حضرت ابوموسیٰ کہتے ہیں: آنحضرتﷺ نے مجھے بھی حضرت ابوعامر کے ساتھ بھیجا تھا۔ ابوعامر کے گھٹنے میں ایک تیر آکر لگا جو ایک جُشمی آدمی نے پھینکا تھا وہ تیر ان کے زانو میں اتر گیا، میں ان پاس گیا اور پوچھا:چچا جان! آپ کو کس نے تیر مارا ہے؟ انہوں نے اشارہ سے بتایا : جس نے مجھے تیر مارا ہے وہی میرا قاتل ہے، حضرت ابوموسیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس کی تاک میں چلا، جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگا،میں نے اس کا پیچھا کیا ،میں اس سے کہتا جارہا تھا اوبے غیرت! اوبے غیرت! ٹھہرتا کیوں نہیں؟ وہ ٹھہر گیا ،میں اور وہ ایک دوسرے پر تلواروں سے حملہ آور ہوئے اور میں نے اسے قتل کردیا پھر میں نے حضرت ابوعامر سے کہا :اللہ نے آپ کے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے ، انہوں نے کہا :میرا یہ پیوست شدہ تیر تو نکالو ،میں نے وہ تیر نکالا تو اس (زخم) سے پانی نکلا ،انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! نبی ﷺ سے میرا سلام کہنا اور آپ سے عرض کرنا کہ میرے لئے دعائے مغفرت کریں، ابوعامر نے مجھے اپنی جگہ امیر لشکر نامزد کیا ، اور تھوڑی دیر زندہ رہ کر شہید ہوگئے، میں واپس لوٹا اور نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا آپﷺاپنے مکان میں ایک بانوں والی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس پر (برائےنام ایسا) فرش تھا کہ چارپائی کے بانوں کے نشانات آپ کی پشت اور پہلو میں پڑگئے تھے، چنانچہ میں نے آپ ﷺ کو اپنے اور حضرت ابوعامر کی حالت کی اطلاع دی اور (میں نے کہا کہ) انہوں نے آپ سے یہ عرض کرنے کو کہا ہے کہ میرے لئے دعائے مغفرت کردیجئے گا! آپﷺ نے پانی منگوا کر وضو کیا ،پھر اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! عبید ابی عامر کی مغفرت فرما اور (آپ ﷺ کے ہاتھ اتنے اونچے تھے کہ) آپ کی بغلوں کی سفیدی میں دیکھ رہا تھا پھر