کتاب الجنائز |
|
گھروں میں تالے لگاکر آجاتے ہیں اور میت کے گھر والے اُن کیلئے خواہی نہ خواہی کھانے پینے کا بندو بست کرتے ہیں ،اور نہ کرنے پر مطعون اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے ہیں ۔ علّامہ شامیفرماتے ہیں : میت کے گھر والوں کی جانب سےلوگوں کی دعوت کرنا مکروہ ہے اِس لئے کہ دعوت تو سرور(خوشی)کے موقع پر کی جاتی ہے،شرور(مصیبت اور تکلیف)کے موقع پر نہیں اور یہ دعوت بہت ہی بُری بدعت ہے ۔ وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ، وَهِيَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ۔(شامیہ:2/240) حضرت جَریر بن عبد اللہ بجَلیفرماتے ہیں : ہم( یعنی صحابہ) اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کے اوپر نوحہ کرنا شمار کیا کرتے تھے۔۔عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: «كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنَ النِّيَاحَةِ»۔(ابن ماجہ:1612) علّامہ سندیفرماتے ہیں: میت کے گھر والوں کا دعوت کرنا شریعت کے بیان کردہ حکم کوبالکل برعکس چلنا ہے ،اِس لئے کہ شریعت میں تو یہ وارد ہوا ہےلوگ میت کے گھر والوں کیلئے کھانا تیار کریں،پس اگر لوگ خود ہی آکر میت کے گھر میں جمع ہوجائیں تاکہ میت کے گھر والے بتکلّف اُن کیلئے کھانے کا انتظام کریں تو یہ تو شریعت کے بیان کردہ حکم کو پلٹ ڈالنا ہے۔یہی وجہ ہےکہ بہت سے فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے کہ میت کے گھر والوں کی جانب سےدعوت کا اہتمام عقل کے بالکل خلاف ہےکیونکہ دعوت خوشی کے موقع پر کی جاتی ہے،غم اور حزن کے وقت نہیں۔(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ:1/490)