کے جوش دینے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۲۷،۲۸، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
اقتباس بالا میں ممانعت جہاد اور اطاعت انگریزی کو یوں جوڑ دیا گیا ہے۔ گویا جہاد صرف انگریز کی خاطر حرام کیاگیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی فہم سے بالاتر ہے کہ انگریزی حکومت نے امن تو ہندوستان میں قائم کیاتھا۔ اس کے خلاف جہاد یہاں حرام تھا۔ بھلا عراق وایران کے مسلمانوں کو ممانعت جہاد اور اطاعت انگریز کا درس دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تھی؟ عراق وشام پر ترکوں کی حکومت تھی۔ پھر انہیں ترک جہاد کا مشورہ کیوں دیاگیا۔ اگر آپ یہ جواب دیں کہ مسیح موعود ساری دنیا کے لئے تھے۔ اس لئے وہ ترکوں کو ترک جہاد کا مشورہ دینے میں حق بجانب تھے۔ تو پھر یہ سوال ہوگا کہ ساری دنیا میں انگریز بھی شامل تھے۔ آپ نے انگریز کو کیوں یہ مشورہ نہ دیا۔ مرزاقادیانی کی آنکھوں کے سامنے انگریز نے شہنشاہ دہلی کے دو شہزادوں کو بازار میں گولی سے ہلاک کیا۔ شہنشاہ کو برما میں محبوس کیا۔ کابل کی آزادی چھینی، مصر کو تاخت وتاراج کیا۔ سوڈان میں قیامت بپاکی اور مرزاقادیانی نے اپنی بہتّر(۷۲) صخیم کتابوں میں اس کے متعلق ایک احتجاجی سطر تک نہ لکھی اور نہ اسے ترک جہاد کا وعظ سنایا۔ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ مسیح موعود نے ترک جہاد کی تلقین صرف مسلمانوں کو کیوں کی اور جب روس وانگریز کی جنگ ہونے لگی تو ان دونوں کو جہاد سے نہ روکا، ہے کوئی جواب؟
سوال… کیا واقعی انگریز کی خاطر جہاد حرام کیاگیا تھا؟
جواب… ’’گورنمنٹ انگلشیہ خدائی نعمتوں سے ایک نعمت ہے۔ یہ ایک عظیم الشان رحمت ہے۔ یہ سلطنت مسلمانوں کے لئے آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے۔ خداوند رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے باران رحمت بھیجا۔ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا قطعی حرام ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۹۲،۹۳، خزائن ج۶ ص۳۸۸،۳۸۹)
’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ قبول کیاگیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
اگر جہاد قطعی موقوف ہوچکا ہے تو پھر آدھا قرآن منسوخ ہوگیا۔ اگر آپ یہ فرمائیں کہ