میرا مطلب تنقیص نہیں بلکہ اظہار حیرت ہے کہ اس خدا کو جس کی حیرت انگیز صناعی پہ ارض وسماء شہادت دے رہے ہیں۔ جس کے موقلم سے طرفتہ العین میں لاکھوں بہاریں اور جس کے ساز سے بے شمار نغمے برس پڑے ہیں۔ یہ کیا ہوگیا کہ اس کے منہ سے فصیح تو رہا ایک طرف، کوئی صحیح لفظ بھی مشکل ہی سے نکلتا ہے۔
خطبہ الہامیہ
۱… ’’الذی اکلوا اعمارہم فی ابتغاء الدنیا‘‘ جو تلاش دنیا میں اپنی عمر کو کھاگئے۔ ’’عمرکھانا‘‘ پنجابی محاورہ ہے۔ عربی میں استعمال نہیں ہوتا۔
(خطبہ الہامیہ ص۲۷، خزائن ج۱۶ص۷۲)
۲… نزول مسیح کے مشہور عقیدہ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وہل ھو الا خروج من القرآن‘‘ کہ یہ عقیدہ قرآن کے خلاف بغاوت ہے۔ خروج جب بغاوت کے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے بعد ہمیشہ علیٰ آتا ہے۔ اس لئے من القرآن صحیح نہیں۔
(خطبہ الہامیہ ص۵۸، خزائن ج۱۶ص۱۰۲)
۳… عربی میں سازش اور مکر کے لئے ایک لفظ کید بھی ہے جس کی جمع ہے مکائد۔ ظاہر ہے کہ مکر وسازش انسان کا کام ہے یا شیطان کا۔ زمین، پہاڑ یا تارے کوئی شرارت نہیں کرسکتے۔ لیکن آپ زمین کو بھی مکار سمجھتے ہیں: ’’ففریق علموا مکائد الارض وفریق اعطوا مااعطی الرسل من الہدی‘‘ ایک فریق کو زمین کی مکر ملے اور دوسرے کو ہدایت نصیب ہوئی۔ (خطبہ الہامیہ ص۷۶، خزائن ج۱۶ص۱۲۸) ۴… ’’وتنزل السکینۃ فی قلوبھم‘‘ تنزل کے بعد علیٰ چاہئے۔
(خطبہ الہامیہ ص۸۳، خزائن ج۱۶ص۱۳۸)
۵… ’’فخرج النصادیٰ من دیرہم‘‘ نصاریٰ اپنے گرجائوں سے نکلے۔ گرجائوں کا ترجمہ دیر نہیں بلکہ ادیار۔ ادیرہ یا دیورہ ہے۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۰۰، خزائن ج۱۶ص۱۶۲)
۶… ’’وار تدوا من الاسلام‘‘ عن چاہئے۔ من غلط ہے۔
(خطبہ الہامیہ ص۱۰۸، خزائن ج۱۶ص۱۷۳)
۷… ’’ویریدون ان یدسوا الحق فی تراب ویمزقوا اذیالہ کلاب‘‘ التراب اور الکلاب چاہئے۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۰۹، خزائن ج۱۶ص۱۷۵،۱۷۴)