میںتکلیف مالایطاق ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
وحی کے متعلق قرآن کریم کا بھی ارشاد ہے: ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ ہم نے کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا جس کی (طرف وحی) اس کی قوم کی زبان میں نہ بھیجی ہو۔ مرزاقادیانی نے فرمایا کہ: ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘ لیکن دوسری جگہ خود ہی فرمایا کہ: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
اس سے انہیں کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس کا اندازہ ان کے ایک خط سے لگ سکتا ہے جو انہوں نے میر عباس علی شاہ صاحب کے نام لکھا تھا۔ تحریر تھا: ’’چونکہ اس ہفتے میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگرچہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں۔ مگر قابل اطمینان نہیں اور بعض منجانب اﷲ بطور ترجمہ الہام ہوا تھا اور بعض کلمات شاید عبرانی ہیں۔ ان سب کی تحقیق وتنقیح ضرور ہے۔ آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلد دریافت کر کے صاف خط میں جو پڑھا جاوے اطلاع بخشیں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج اوّل ص۶۸)
ایک ’’مامور من اﷲ‘‘ کی دشواریاں بھی کس قدر ہوتی ہیں۔ خدا اس کی طرف ایسی زبان میں الہام نازل کر دیتا ہے جسے وہ سمجھتا نہیں اور اسے اس کا مفہوم سمجھنے کے لئے ہندو لڑکوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سچ ہے ؎
جن کے رتبے ہیں سو ان کی سوا مشکل ہے
تناقضات
مرزاقادیانی نے جس قدر دعاوی کئے اور جس قدر بیانات دئیے۔ ان کے اقتباسات آپ کی نظروں سے گذر چکے ہیں۔ ان سب میں ایک چیز آپ کو بطور قدر مشترک ملے گی اور وہ یہ کہ ان کے دعاوی اور بیانات باہم دگر مختلف اور متناقض ہیں۔ اس قدر متناقض کہ انہیں (مرزاقادیانی کو) مخالفین کے اعتراضات سے تنگ آکر یہاں تک کہہ دینا پڑا کہ ان کے دعاوی میں جہاں جہاں بھی نبی کا لفظ آیا ہے۔ اس کو کاٹا ہوا تصور کیاجائے اور میاں محمود احمد قادیانی کو یہ کہنا پڑا کہ مرزاقادیانی کی ۱۹۰۱ء سے قبل کی تحریروں سے سند نہ لائی جائے۔ وہ سب مرفوع القلم ہیں۔ ان تناقضات کی بیّن مثال ابھی ابھی ہمارے سامنے آئی ہے وہ کہتے ہیں کہ: ’’یہ بالکل غیر