دوم… مرزاقادیانی پر پہلی وحی ۱۸۶۵ء میں نازل ہوئی تھی۔ (تفصیل کا انتظار فرمائیے) ۱۹۰۱ء تک پورے چھتیس برس بنتے ہیں۔ ایک رسول کے ثلث صدی کے الہامات کو بیک کشش قلم منسوخ کردینا ایک ایسا اقدام ہے جس کے لئے سند کی ضرورت ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کی بہتر(۷۲) تصانیف میں ایک لفظ تک ایسا نہیں ملتا جس سے اشارۃً بھی یہ مترشح ہوتو ہو کہ میاں صاحب کو ایک رسول کا کلام منسوخ کرنے کے اختیار حاصل ہیں۔
سوم… مرزاقادیانی کا انتقال مئی۱۹۰۸ء میں ہوا۔ ان پر پورے بیالیس سال تک وحی آتی رہی۔ اگر کوئی صاحب چونتیس برس کی وحی کو یہ کہہ کر مسترد کر دے کہ وہ آخری آٹھ برس کی وحی سے متصادم ہوتی ہے تو ایک غیر احمدی لازماً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ یاتو پہلی وحی غیر خدائی تھی اور یا آخری۔ اس لئے کہ خدا کی وحی میں تضاد وتصادم نہیں ہوا کرتا۔
چہارم… ہم صفحات گذشتہ میں ’’دافع البلائ‘‘ اور ’’کشتی نوح‘‘ کے چند اقتباسات درج کرچکے ہیں۔ جن میں مرزاقادیانی خاتمۂ نبوت کے صریحاً قائل ہیں۔ یہ دونوں کتابیں ۱۹۰۲ء میں لکھی گئی تھیں اور اگر صرف ۱۹۰۱ء کی تحریرات منسوخ ہیں تو پھر ان اقتباسات کا تطابق آخری تحریرات سے کیسے ہوگا؟
پنجم… مرزاقادیانی کی اہم تصانیف بہتر(۷۲) ہیں۔ جن میں سے اڑتالیس ۱۹۰۱ء سے پہلے کی ہیں اور چوبیس بعد کی۔ اگر ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ کر دی جائیں تو مرزاقادیانی کی دوتہائی تحریرات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اگر ایک رسول دوتہائی تحریرات کوناقابل اعتماد قرار دیا جائے تو باقیماندہ ایک تہائی پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔
دوسرا باب … مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
جماعت احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی مسیح موعود تھے اور آپ کا منکر کافر ہے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خدا کے نشانوں کو رد کرتا ہے۔ وہ مؤمن کیونکر ہوسکتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۶۳،۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۸) ’’کفر دو قسم پر ہے۔ اوّل یہ کفر کہ ایک شخص اسلام ہی سے انکارکرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو نہیں مانتا۔ دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا۔ یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)