قرآن کریم کو خدا کی کتاب ماننے والوں کے ہاں ختم نبوت بھی کوئی ایسا مسئلہ ہوسکتا تھا۔ جس میں کسی بحث کی گنجائش ہوتی۔ لیکن وائے بدنصیبی کہ ہمارے ہاں ایسی مسلمہ حقیقت پر بھی گذشتہ ساٹھ ستر برس سے بحث ہورہی ہے اور مسلسل بحث! آپ کو معلوم ہے کہ اس بحث کا مدار کس چیز پر ہے؟ (جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں) روایات پر۔ اس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔ سردست ہم قرآن کریم کی ان اصطلاحات کو دیکھیںگے۔ جن کا اس موضوع سے بنیادی تعلق ہے۔
۱…وحی
ان اصطلاحات میں سب سے پہلے وحی کی اصطلاح آتی ہے۔ لغت کی رو سے اس لفظ (یا مادہ و،ح،ی) کے کیا معنی ہیں۔ اسے میں نے اپنی لغات القرآن میں عربی زبان کی مستند کتاب لغت کے حوالوں کے ساتھ تفصیل سے لکھا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس جگہ بالفاظ درج کر دیا جائے۔ وھوہذا!
الوحی: اشارہ جس میں تیزی اور سرعت ہو۔ ’’وحیت لک بخبر کذا‘‘ میں نے تمہیں فلاں بات کا اشارہ کر دیا۔ یا چپکے سے مطلع کر دیا۔ چنانچہ سورۃ مریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق ہے کہ ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں سے بات نہ کریں۔ ’’فاوحیٰ الیہم (…)‘‘ لہٰذا اس نے لوگوں کو اشارہ سے کہا۔
۲… راغب نے کہا ہے (اور صاحب تاج نے بھی اس کی تائید کی ہے) کہ الوحی کے معنی تیز اشارہ کے ہیں۔ اسی لئے شیٔ وحی کے معنی ہیں۔ وہ چیز جو جلدی سے آجائے اور امر وحی تیز رفتار معاملہ الوحی جلدی، تیزی کرنا، اوحی العمل اس نے کام میں جلدی کی۔
۳… الوحی کے معنی کتاب (یعنی لکھنا) بھی ہیں۔ ’’وحیت الکتاب‘‘ میں نے کتاب کو لکھا۔ واح لکھنے والا۔ (کاتب) ’’الوحی‘‘ لکھی ہوئی چیز یا نامہ۔ چنانچہ جوہری نے کہا ہے کہ: ’’الوحی‘‘ کے معنی ’’الکتاب‘‘ ہیں۔
صاحب لطائف اللغتہ نے بھی ان معانی کی تائید کی ہے اور ابن فارس اور راغب نے بھی سورۂ مائدہ میں جو ہے۔ ’’واذ اوحیت الیٰ الحوارین (مائدہ:۱۱۱)‘‘ تو اس میں وحی کے معنی لکھے ہوئے۔ حکم کے ہیں۔ یعنی اس وحی کے ذریعے جو (بقول راغب)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے (انجیل میں لکھی ہوئی) بھیجی گئی تھی۔
۴… اوحیٰ کے معنی حکم کرنا۔ امر کرنا۔ چنانچہ صاحب تاج نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں حواریوں کی طرف وحی کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے انہیں حکم دیا تھا۔ اور یہ وحی