دستخط: جے ایم ڈوئی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء ’’سو اگر مسٹر ڈوئی صاحب (دسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور) کے روبرو میں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں ان کو (مولوی محمد حسین بٹالوی کو) کافر نہیں کہوںگا تو واقعی میرا یہی مذہب ہے کہ میں کسی مسلمان کو کافر نہیں جانتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص عدالت سے یوں چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس کے بعد ساری عمر مسلمانوں کو کافر قرار دیتے رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد اس موضوع پر کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں۔
نگۂ بازگشت
اس طویل سفر میں ہم نے جو راستہ طے کیا ہے۔ بہتر ہے کہ اس پر ایک نگہ بازگشت ڈال لی جائے۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے بعد نبوت کے امکان کا تصور بھی انسان کو امت محمدیہ کے دائرہ سے خارج کر دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ نبوت کی مختلف قسمیں نہیں ہوتیں۔ نبوت کی ایک ہی قسم ہے اور وہی اصلی اور حقیقی نبوت ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے ہبی طور پر ملتی تھی۔ نبوت کے معنی ہیں خدا کی طرف سے براہ راست علم حاصل ہونا۔ اس علم کو وحی یا اس نبی کی کتاب کہا جاتا تھا۔ یہ وحی اپنی آخری مکمل اور غیر متبدل شکل میں قرآن کی دفتین میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دی گئی۔ لہٰذا نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔ اب اگر کوئی شخص قرآن کریم کے حکم کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ مدعی نبوت ہے۔ لہٰذا جھوٹا اور خدا کے خلاف افتراء کرنے والا، بروزی، ظلی، تدریجی، اتباعی نبوت کا تصور بھی خلاف قرآن ہے اور مسیح موعود، مجدد اور مہدی کا ذکر تک بھی قرآن میں نہیں۔ ختم نبوت کے بعد رسالت محمدیہ کا عملی نفاذ قرآنی نظام حکومت کی شکل میں ہوگیا۔ اسی نظام کی وارث امت محمدیہ خیرالامم ہے۔ جب تک وہ نظام قائم رہا امت میں کوئی مدعی نبوت پیدا نہ ہوا۔ اب اس قسم کے مدعی اس لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ امت میں وہ نظام باقی نہیں رہا۔ ان مدعیوں کے دعاوی کے ابطال کی عملی صورت یہی ہے کہ دنیا میں پھر سے دین کا نظام قائم کر دیا جائے۔ آنے والے کا انتظار مایوسی کا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ جب نظام خداوندی کے قیام سے مایوسی ختم ہو جائے گی تو پھر امت کو کسی نئے ظہور کی طلب وجستجو نہیں رہے گی۔ اس وقت ایران کے باب اور بہاء اﷲ کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے گی کہ قرآن ریلوے ٹائم ٹیبل کی طرح منسوخ العمل نہیں ہوگیا۔ بلکہ وہ انسانی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ابدی اصول حیات اپنے اندر رکھتا ہے اور اس وقت قادیانی نبوت یا مجددیت پر بھی یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ رسالت محمدیہ اس طرح ابدیت درکنار ہے کہ نہ اس کا دور کبھی ختم ہوسکتا ہے اور نہ ہی مرور زمانہ ۴۳۳