یعنی قرآن کریم نے خدا اور رسول اور جماعت مؤمنین میں سے ان افسران ماتحت کی اطاعت کو فرض قرار دیا تھا۔ جنہیں کچھ اختیارات تفویض کئے گئے ہوں۔ لیکن مرزاقادیانی کفار کی اطاعت کو فرض قرار دے رہے ہیں۔ یا للعجب!
وہ اپنے اشتہار مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۸۹۴ء میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں سولہ برس سے برابر اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۹۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۸)
ایک اور مقام پر ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
انہوں نے ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ، منجاب خاکسار مرزاغلام احمد قادیانی ایک درخواست پیش کی جس میں لکھا تھا کہ:
جہاد ختم
’’میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدید جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے۔ جس کا میں پیشوا اور امام ہوں۔ گورنمنٹ کے لئے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی… میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگ جوئی اور فساد کا نہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیںگے ویسے ویسے جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیںگے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۸،۱۹)
آپ نے غور فرمایا ہے کہ مسیح اور مہدی کے دعویٰ اور قرآنی حکم جہاد کی تنسیخ کا مقصد کیا تھا؟ مسلمانوں کے دل سے جہاد کا خیال ختم کرنا۔
ایک اور اشتہار میں فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ