گئے ہیں۔‘‘ (شہادت القرآن ص۲۸، خزائن ج۶ ص۳۲۳)
دوسری جگہ لکھا ہے۔ ’’میں نبی نہیں ہوں۔ بلکہ اﷲ کی طرف سے محدث اور اﷲ کا کلیم ہوں تاکہ دین مصطفیٰ کی تجدید کروں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۸۳، خزائن ج۵ ص ایضاً)
محدث کا اگلا درجہ، برزخی نبوت
’’محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی۔ امتی وہ اس وجہ سے کہ وہ بہ کلی تابع شریعت رسول اﷲ اور مشکوٰۃ رسالت سے فیض پانے والا ہوتا ہے اور نبی اس وجہ سے کہ خداتعالیٰ نبیوں کا سا معاملہ اس کے ساتھ کرتا ہے۔ محدث کا وجود انبیاء اور امم میں بطور برزخ کے اﷲتعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ وہ اگرچہ کامل طور پر امتی ہے۔ مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی کا مثیل ہو اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۶۹، خزائن ج۳ ص۴۰۷)
آپ دیکھ رہے ہیں کہ مرزاقادیانی کس طرح محدثیت کے دعویٰ کو (جو مسلمانوں میں رائج تھا) آگے بڑھا کر نبوت تک لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے مثیل مسیح ہونے کے دعویٰ کے لئے زمین ہموار کر رہے ہیں۔ نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق ہورہا ہے۔ لیکن ان کے فرزند ارجمند (مرزامحمود احمد قادیانی) ان کی مدافعت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی ایسا کچھ دیدہ دانستہ نہیں کہہ رہے تھے۔ یہ ان کی لاعلمی پر مبنی غلطی تھی۔ ارشاد ہے: ’’حضرت اقدس اپنے دعویٰ کو کہتے تو محدثیت کا دعویٰ تھے۔ مگر محدثیت کے جو معنی تعریف اور کیفیت بیان کرتے تھے وہ درحقیقت نبوت کے معنی تعریف اور کیفیت تھی… اور آپ کا اپنے اس دعویٰ کو نبوت کے بجائے محدیثت کا دعویٰ قرار دینا آپ کی لا علمی پر مبنی غلطی تھی۔ کیونکر یہ دعویٰ بلحاظ تعریف وکیفیت اور تفصیل درحقیقت نبوت کا دعویٰ تھا۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۱۲۴،۱۲۸، بحوالہ پیغام صلح لاہور ص۵ ج۵۸ نمبر۱۱، مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۷۱ئ)
’’اتنا ہی نہیں۔ حضرت اقدس کی مجالس میں مہینوں یہ چرچا رہتا تھا کہ نبوت کے بارے میں آپ کا اجتہاد درست نہیں نکلا۔‘‘ (ملفوظات میاں محمود احمد، اخبار الفضل مورخہ۲۶؍مئی ۱۹۴۴ئ، بحوالہ پیغام صلح ص۶ ج۵۸ نمبر۱۱، مورخہ۱۷؍مارچ ۱۹۷۱ئ)
اس قسم کا تذبذب مرزاقادیانی کی لاعلمی پر مبنی غلطی ہو یا (خود مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں) مسلمانوں کو پیچ میں پھنسانے کی ترکیب بہرحال یہ ان کی ذہنی سطح اور قلبی کیفیت کی صحیح صحیح آئینہ دار ہے۔