جب ان کی جماعت کے لوگ طاعون سے مرنے لگے تو انہوں نے لکھا کہ: ’’میں کہتا ہوں اور بڑے دعویٰ اور زور سے کہتا ہوں کہ اگر ایک شخص ہماری جماعت میں سے طاعون سے مرتا ہے تو بجائے اس کے سو آدمی یا زیادہ ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے اور یہ طاعون ہماری جماعت کو بڑھاتی جاتی ہے۔ پس ہمارے لئے طاعون رحمت ہے اور مخالفوں کے لئے زحمت اور عذاب ہے اور اگر دس پندرہ سال تک ملک میں ایسی ہی طاعون رہی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ تمام ملک احمدی جماعت سے بھر جائے گا۔ پس مبارک ہے وہ خدا جس نے دنیا میں طاعون کو بھیجا تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم بڑھیں اور پھولیں اور ہمارے دشمن نیست نابود ہوں۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۵۶۸،۵۶۹)
لوگوں کی موت کی پیش گوئیاں
پیش گوئیوں کے سلسلے میں مرزاقادیانی نے خود کہا تھا کہ وہ ان کے دعاوی کے سچا اور جھوٹا ہونے کی محک (کسوٹی) ہیں اور بات ہے بھی ٹھیک۔ جس شخص کا دعویٰ ہو کہ یہ غیب کی خبر مجھے خدا نے دی ہے۔ وہ بات اگر جھوٹی نکلے تو اس کا یہ دعویٰ خود بخود جھوٹا ثابت ہو جائے گا۔ اس اصول کے مطابق ہم مرزاقادیانی کی پیش گوئیوں میں سے دو تین کا جائزہ لیتے ہیں۔
۱… عبداﷲ آتھم ایک عیسائی (پادری) تھا۔ جو مرزاقادیانی کے ساتھ اکثر مناظرے کیا کرتا تھا۔ اس کے متعلق مرزاقادیانی نے پیش گوئی کی کہ وہ ایک مقررہ تاریخ (۵؍ستمبر ۱۸۹۴ئ) کو مر جائے گا۔ دوسرے لوگوں کو اس پیش گوئی پر یقین ہو یا نہ ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ خود پیش گوئی کرنے والے (یعنی مرزاقادیانی) کو تو اس پر ایمان ہونا چاہئے تھا کہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے ایسا ہوکر رہے گا۔ لیکن مرزاقادیانی کی کیفیت کیا تھی۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے۔ جسے صاحبزادہ بشیر احمد نے اپنی کتاب (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۷۸) پر لکھا ہے۔ اسے غور سے پڑھئے۔ انہوں نے لکھا ہے: ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے اور میاں حامد علی صاحب مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے فرمائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو۔ (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی) میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے سورت یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورت تھی۔ جیسے ’’الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل‘ ‘ہے۔ ہم نے یہ وظیفہ قریباً ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب کے پاس لے