۳… ’’اصل بات یہ ہے کہ شیعہ کی روایات کے بعض سادات کرام کے کشف لطیف پہ بنیاد معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۴۵۷، خزائن ج۳ ص۳۴۴)
’’اصل بات‘‘ کے ساتھ ’’معلوم ہوتی ہے‘‘ بے معنی ہے۔ کیونکہ وہ مظہر یقین ہے اور یہ مخبر اشتباہ باقی فقرہ مہمل ہے۔ بنیاد مضاف ہے اور روایات مضاف الیہ۔ دونوں میں سات الفاظ حائل ہیں۔ یہ انفصال علمائے فصاحت کے ہاں ناروا ہے۔ جملے میں ’’کے لئے‘‘ کی تکرار ذوق خراش ہے۔ فقرہ یوں ہونا چاہئے تھا۔
’’اصل بات یہ ہے کہ شیعی روایات کی بنیاد بعض سادات کرام کے کشف لطیف پہ رکھی گئی ہے۔‘‘
۴… ’’کہ میری اس تجویز کے موافق جو میں نے دینے چندہ کے لئے رسالہ مذکورہ میں لکھی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷۴، خزائن ج۳ ص۵۱۸)
ملاحظہ کی یہ ترکیب ’’دینے چندہ کے لئے‘‘؟
گو مرزاقادیانی کی تحریرات میں اس طرح کی ہزارہا مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ہم صرف انہی امثلہ پہ اکتفاء کرتے ہیں۔
۲…ثقیل الفاظ
جس طرح ایک ساز سے دو قسم کے سر نکلتے ہیں۔ لطیف وثقیل اسی طرح الفاظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ہلکے اور بھاری۔ یا یوں سمجھئے کہ بعض الفاظ مترنم ہوتے ہیں۔ جیسے تبسم، رواں، عیاں، دواں، قائم دائم وغیرہ اور بعض غیر مترنم مثلاً کچھوا، بدھو، اگاڑی، پچھاڑی، پنگڑ، بھوت، بھبوکا، لگڑ بگڑ وغیرہ۔ دیدہ سے نینن۔ محبت سے پریم، کشتی سے نیّا، سمندر سے ساگر، پہاڑ سے کوہ۔ قطرے سے بوندی۔ عشق سے پیت اور معشوق سے پیتم۔ ہلکے اور سریلے الفاظ ہیں۔ ادیب کا فرض ہے کہ وہ تحریر میں ہلکے پھلکے الفاظ استعمال کرے۔ اور ثقیل وکثیف الفاظ سے بچے۔ ’’علماء وحکماء اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔‘‘ اسی مضمون کو ایک مولانا صاحب یوں ادا فرماتے ہیں۔ ’’علمائے محققین وحکمائے مدققین وحاملین علم المعرفت والیقین ودانایان اسرار شرع متین پر یہ حقیقت غامضہ کالشمس واضح ومبرہن ہے۔‘‘
یہ تو خیرگذری کہ مولانا نے الفاظ کو اپنے صحیح مقامات پہ رہنے دیا۔ ورنہ وہملغوبہ تیار ہوتا کہ عمر بھر سمجھ میں نہ ہوتا۔